کسی مسلمان دکان دار کے غیرمسلم ملازم سے گوشت خریدا جاسکتا ہے؟

زندگی جمادی الاولیٰ ۱۹۹۵ء(مطابق جون ۱۹۷۵ء) رسائل ومسائل بعنوان ’حلال اور پاک گوشت غیرمسلم سے بھی خریدا جاسکتا ہے۔‘ جناب نے تحریر فرمایا ہے ’’اصل بات دیکھنے اور تحقیق کرنے کی یہ ہے کہ جہاں جانو ر ذبح کیے جاتے ہیں وہاں وہ شرعی طریقے سے ذبح کیے جاتے ہیں یا نہیں ؟ اگر شرعی طریقے پرذبح کیے جاتے ہیں تو پھر کسی غیرمسلم سے بھی ان کا گوشت خریدا جاسکتا ہے کیوں کہ جو گوشت خریدا جارہاہے وہ حلال اورپاک ہے‘‘۔

اس سلسلے میں بہشتی زیور حصہ سوم میں حلال اورحرام چیزوں کے بیان میں مندرجہ ذیل مسئلہ تحریر ہے

’’جوگوشت ہندوبیچتا ہے اورکہتا ہے کہ میں نے مسلمان سے ذبح کرایا ہے اس سے مول لے کر کھانا درست نہیں۔  البتہ جس وقت مسلمان نے ذبح کیا ہے اگر اس وقت سے کوئی مسلمان برابر بیٹھا دیکھ رہا ہویا وہ جانے لگا تو دوسرا اس کی جگہ بیٹھ گیا تب درست ہے۔‘‘

ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔آپ کی تحریر سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ذبیحہ شرعی ہے تو غیرمسلم سے بھی خریدا جاسکتا ہے لیکن بہشتی زیور کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان کی نظر سے اوجھل ہونا ہی اس کا مشکوک ہونا ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اور بعض جگہ ایسا سنا گیا ہے کہ غیرمسلم گوشت فروخت کرنے والے مردہ بکری وغیرہ کاگوشت بھی اچھے گوشت کے ساتھ فروخت کرتے ہوئے پکڑےگئے ہیں۔ مہربانی فرما کر اس امر کی وضاحت فرمائیے کہ ان دونوں باتوں میں کون سی بات صحیح ہے؟ چوں کہ بہشتی زیور اس وقت پاس نہیں ہے ورنہ حاشیہ میں دیکھا جاتاکہ مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا دلیل تحریر کی ہے؟

جواب

یہ سوال فیروز آباد سے جون ۱۹۷۵ء کے آخر دنوں میں آیا تھا اس کے بعد ہی میں رام پور سے باہر چلاگیا اور پونے سات ماہ کے بعد واپسی ہوئی۔ حسن اتفاق سے یہ سوال کاغذات میں محفوظ رہ گیا۔ یہ مسئلہ چوں کہ اکثر پیش آتا رہتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس کا جواب شائع کردیا جائے۔

مکتوب نگار اگرسوال کو سامنے رکھ لیتے جس کا جواب میں نے دیا ہے تو میرے جواب اور بہشتی زیور کے مسئلہ کا فرق وہ خود محسوس کرلیتے۔ میں نے جس سوال کا جواب دیا ہے اس میں صراحت ہے کہ ’’دکان دار مسلمان ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض کسی غیرمسلم کو گوشت فروخت کرنے کے لیے ملازم رکھ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس غیرمسلم ملازم سے گوشت خریدکرکھانا درست ہے یا نہیں ؟‘‘

بہشتی زیور میں جو مسئلہ لکھا ہے وہ اس صورت کا ہے کہ جب دکان دار ہندوہواور وہی گوشت کا مالک بھی ہو۔ وہ کسی مسلمان سے اپنی دکان کا گوشت فروخت کرنے کے لیے یہ کہتا ہے کہ میں نے جانور مسلمان سے ذبح کرایا ہے۔ ایسی صورت میں اس سے گوشت مول لے کر کھانا درست نہیں ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں، میں نے جس صورت کا جواب دیا ہے اس میں گوشت کا مالک مسلمان ہے اور اس کے حلال ہونے کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ اس کے حلال یا حرام ہونے کی ذمہ داری اس غیرمسلم پرنہیں ہے جو محض ملازم کی حیثیت سےگوشت فروخت کررہا ہے۔ بہشتی زیور میں جو مسئلہ ہے اس میں گوشت کا مالک ہندوہے اور اس کے حلال ہونے کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گوشت فروخت کرنے کے لیے مسلمان سے یہ کہتا ہے کہ میں نے جانور مسلمان سے ذبح کرایا ہے۔ چوں کہ اس صورت میں یہ قرینہ موجود ہے کہ وہ اپنی دکان چلانے اور اپنا مال فروخت کرنے کے لیے غلط بیانی کررہاہواس لیے مولانا تھانویؒ نے اس سے گوشت خریدنے کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ کوئی مسلمان اس بات کا گواہ ہوکہ جانور مسلمان نے ذبح کیاتھا اوراس میں اب تک کوئی پھیربدل نہیں ہواہے۔ مولانا تھانویؒ نے ہندودکان دار سے گوشت خریدکرنہ کھانےکا جو مسئلہ بیان کیا ہے، حاشیہ میں اس کی دلیل یہ دی ہے 

من اشتری لحما فعلم انہ مجوسی واراد الرد فقال ذبحہ مسلم یکرہ اکلہ                                        (شامی)

’’کسی شخص نے کچھ گوشت خریدا اور بعد کو معلوم ہوکہ بیچنے والا مجوسی ہے۔ اس نے واپس کرنے کا اراد ہ کیاتو اس نے کہا کہ جانور کسی مسلمان نے ذبح کیا ہے۔ ایسے گوشت کو کھانا مکروہ ہے۔‘‘

انھوں نے ہندودکان دار کے یہاں کے گوشت خریدنے اور اس کے درست ہونے کے لیے جو شرط لگائی ہے وہ محض یہ اطمینان حاصل کرنے کے لیے کہ واقعی گوشت حلال ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان کی نظر سے اوجھل ہونا ہی کسی گوشت کو مشکوک یا مکروہ یا حرام کردیتا ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ کسی غیرمسلم کو بھیج کر کسی مسلمان کی دکان سے گوشت منگوانا اوراس کو کھانا جائزہے، حالاں کہ جب وہ گوشت خرید کرلاتا ہے تو وہ مسلمان کی نظر سے اوجھل ہی ہوتاہے۔ امام محمدؒ کی ’الجامع الصغیر‘ جو فقہ حنفی کی مستند ترین کتاب ہے، اس میں لکھا ہے

رجل ارسل اجیرالہ مجوسیا او خادما فاشتری لحما فقال اشتریتہ من یھودی او نصرانی او مسلم وسعہ ان یاکل                      (کتاب الکرامۃ)

’’کسی شخص نے اپنے کسی مجوسی مزدور یا خادم کو بھیجا۔ اس نے کچھ گوشت خریدا اور آکر کہا کہ اس نے کسی یہودی یا نصرانی یامسلمان سے خریدا ہے تو اس گوشت کو کھانا درست ہے۔‘‘

اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی غیرمسلم کی دی ہوئی خبر کو تسلیم کیا جاسکتا ہے اوراس کو قبول کیاجاسکتا ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب فقہا نے یہ دیا ہے کہ اگر خبر کا تعلق معاملات سے ہے تو اس کو صحیح تسلیم کیاجاسکتا ہے البتہ اگر اس کا تعلق دیانات یعنی خاص دینی امور سے ہے تو اس کی دی ہوئی خبر قبول نہیں کی جائے گی۔معاملات میں بھی اس کی دی ہوئی خبر اسی وقت قابل قابل ہوگی جب کذب بیانی کے لیے کوئی قرینہ موجود نہ ہو اور سننے والا بھی اس خبر کو صحیح سمجھے۔ متن تنویر الابصاراور اس کی شرح درمختارمیں ہے

ویقبل قول الفاسق والکافر والعبد فی المعاملات لکثرۃ وقوعھا کما اذا اخبرانہ وکیل فلان فی بیع کذا فیجوزالشراء منہ ان غلب علی الرای صدقہ۔       (درمختار علی حاشیہ الشامی، ج ۵،کتاب الخطروالاباحۃ)

’’فاسق،کافراور غلام کا قول معاملات میں قبول کیاجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملات کثیر الوقع ہیں۔  جیسے ان میں سے کسی نے خبردی کہ وہ فلاں شخص کا اس چیز کو بیچنے میں و کیل ہے تو اس سے خریدنا جائز ہوگا۔ اگر سننے والے کی غالب رائے یہ ہوکہ خبردینے والا سچ بول رہاہے۔‘‘

معاملات کی کئی قسمیں ہیں۔  کن معاملات میں کافر کا قول قبول کیاجائے گا اور کن معاملات میں قبول نہیں کیاجائے گا؟ یہ ایک الگ بحث ہے جس کی تفصیل اس وقت مقصود نہیں۔  اس عبارت میں بعض معاملات کی ایک مثال دی گئی ہے۔ مسئلہ زیر بحث کا اسی سے تعلق ہے۔مثال کے طورپر کوئی مجوسی یہ کہتا ہے کہ میرے پاس جو گوشت ہے وہ فلاں مسلمان قصاب نے مجھے فروخت کرنے کے لیے دیا ہے اور میں اس معاملہ میں اس کا وکیل ہوں۔  اب اگر کوئی مسلمان اس کی اس بات کو صحیح سمجھتا ہے، جھوٹ کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے تو وہ اس مجوسی سے گوشت خرید کر کھاسکتا ہے۔

جو عبارت اوپر پیش کی گئی ہے اس سے پہلے اسی کتاب میں اس کی صراحت موجود ہے۔

ویقبل قول الکافر ولومجوسیا قال اشتریت اللحم من کتابی فیحل اوقال اشتریتہ من مجوسی فیحرم واصلہ ان خبرالکافر مقبول بالاجماع فی المعاملات لافی الدیانات۔

’’کافر کا قول خواہ وہ مجوسی ہوقبول کیاجائے گا۔ مثلاً اس نے کہا کہ میں نے یہ گوشت کسی کتابی(یہودی یا عیسائی) سے خریدا ہے تو وہ گوشت حلال ہوگا۔ یا وہ یہ کہے کہ میں نے اس کو ایک مجوسی سے خریدا ہے تووہ گوشت حرام ہوگا۔ اوراس کی اصل یہ ہے کہ معاملات میں کافر کا قول بالاجماع مقبول ہے، البتہ دیانات میں مقبول نہیں ہے۔‘‘

اس کا یہ قول کہ میں نے فلاں سے یہ گوشت خریدا ہے، خریدوفروخت سے تعلق رکھتا ہے اور بیع وشرا کا باب، ابواب معاملات سے متعلق ہے، دیانات سے متعلق نہیں ہے۔لہٰذا اسے قبول کیا جائے گا الا یہ کہ کوئی ایسا قرینہ موجود ہوجو اس کے قول کے سچ ہونے میں شک پیدا کردے۔ دیانات یعنی دینی امور بھی بہت ہیں۔  میں سمجھنے کے لیے چند مثالیں یہاں پیش کرتاہوں۔

۱- کسی پانی کی نجاست وطہارت کی خبر کا تعلق دینی امور سے ہے۔ اگر کوئی غیرمسلم کہے کہ یہ پانی نجس ہے تو اس کا قول قبول نہیں کیا جائے گا۔

۲-رویت ہلال کی خبردینی امور میں سے ہے اس لیے کسی غیرمسلم کی دی ہوئی خبر سے رویت ہلال ثابت نہیں ہوگی۔

۳- نکاح کا تعلق دینی امور سے ہے۔ اگرکوئی غیرمسلم کہے کہ میری موجودگی میں فلاں مسلمان عورت کا نکاح فلاں مسلمان مرد سے ہوگیا ہے تو اس کی دی ہوئی خبر قبول نہیں کی جائے گی۔فقہا جو یہ لکھتے ہیں کہ دیانا ت میں کسی غیرمسلم کا قول قبول نہیں کیا جائے گا اس سے مراد اسی طرح کے خالص دینی امور ہوتے ہیں۔

یہاں ایک شبہے کا ازالہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ شبہ یہ ہوتا ہے کہ حلت یا حرمت یعنی کسی چیز کا حلال یا حرام ہونا دیانات میں داخل ہےتو پھر کسی دینی امر میں غیرمسلم کا قول یا اس کی دی ہوئی خبر کس طرح قبول کی جائے گی۔ مثال کے طورپر ایک مجوسی یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ گوشت مسلمان سے خریدا ہے۔ اب اس کے قول کو تسلیم کرلیا جاتا ہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ گوشت کے حلال ہونے کے بارے میں اس کی دی ہوئی خبر کو قبول کرلیاگیا۔  اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ اصلاً مجوسی کی اس خبر کو قبول کیا گیا ہے کہ اس نے وہ گوشت کسی مسلمان سے خریدا ہے، گوشت کی حلت ضمناً ثابت ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مجوسی کسی گوشت کے بارے میں یہ کہے کہ ’’یہ حلال ہے یا حرام ہے‘‘ تو اس کا قول قبول نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ اس صورت میں وہ اصلاً اس گوشت کے حلال یا حرام ہونے کی خبر دے رہاہے۔ فقہا نے اس شبہہ کا ازالہ کرتے ہوئے صراحت کی ہے کہ دینی امور میں غیرمسلم کی خبر اس صورت میں قابل قبول نہ ہوگی جب وہ اصلاً مقصود بالذات کے طورپر کسی دینی امر کی خبر دے رہاہو اور اگر وہ اصلاً کسی معاملہ کی خبر دے رہاہوتو وہ قبول کی جائے گی، خواہ اس کے ضمن میں کوئی دینی امرثابت ہورہاہویا نہ ہورہاہو۔

کتاب تبیین کے حوالے سے فتاویٰ ہندیہ میں یہ قاعدہ بیان کیاگیاہے۔

ولا یقبل قول الکافر فی الدیانات الا اذا کان قبول قول الکافر فی المعاملات یتضمن قبولہ فی الدیانات فحینئذتدخل الدیانات فی ضمن المعاملات فیقبل قولہ فیھا ضرورۃً۔                         (عالمگیری،ج۵،ص۳۰۸)

’’دیانات (دینی امور) میں کافر کا قول قبول نہیں کیا جائے گا لیکن اگر یہ صورت ہوکہ معاملات میں اس کا قول قابل قبول بن رہاہے تو ایسے وقت میں دیانات معاملات کے ضمن میں داخل ہوجائیں گے اور ضرورتاً اس کا قول قبول کیاجائےگا۔‘‘

’’ضرورتاً قبول کیاجائےگا‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر غیرمسلم کی خبر ایسے معاملات میں  جس سے ضمناً کوئی دینی امرثابت ہورہاہو، قبول نہ کی جائے تو لوگ سخت دشواری میں پڑجائیں گے۔اس تفصیل سے دوباتیں معلوم ہوئیں۔

۱-ایک یہ کہ اگر کسی مسلمان کی دکان پرگوشت فروخت کرنے کے لیے کوئی غیرمسلم ملازم ہے تو اس سے گوشت خریدنا اورکھانا جائز ہے۔کیوں کہ اس گوشت کے حلال ہونے کی تمام ترذمہ داری اس مسلمان دکان دار پر ہے۔ اسی طرح اگر کسی غیرمسلم کو بازار بھیج کر گوشت منگوایا جائے اور وہ یہ کہے کہ میں نے گوشت مسلمان سے خریدا ہے تو وہ گوشت حلال ہوگا۔

۲- کسی غیرمسلم کی دکان سے گوشت خریدنا اورکھانا جائز نہیں ہے۔ الا یہ کہ اس بات پر اطمینان حاصل ہوجائے کہ جو گوشت وہ بیچ رہاہے وہ حلال ہے۔ اس غیرمسلم کا محض یہ کہہ دینا کہ جانور کسی مسلمان نے ذبح کیا ہے،کافی نہیں ہے۔ بلکہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیوں کہ اس بات کا اندیشہ موجود ہے کہ وہ اپنی دکان چلانے اور گوشت فروخت کرنے کے لیے غلط بیانی سے کام لے رہاہو۔

(جولائی اگست ۱۹۷۶ء،ج۵۷،ش۱۔۲)