کسی کی جائدادپرغاصبانہ قبضہ گناہ کبیرہ ہے

,

زید نے سائیکل کی ایک دکان کھولی اوراس دکان پراپنی بہن کے ایک پوتے عمروکو تنخواہ دار معاون کی حیثیت سے رکھا۔ اپنی زندگی میں وہ اس سے دکان کا حساب کتاب لیتے رہے۔ زید کے ایک لڑکے بکرتھے۔ اچانک زید کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد بکر اپنے والد کی دکان کا حساب کتاب لیتے رہے۔ لیکن اتفاق یہ کہ چھ ماہ کے بعد بکر کا بھی انتقال ہوگیا اور وہ اپنے پیچھے تین نابالغ اولاد چھوڑ گئے۔ کوئی شخص ایسا باقی نہ رہاکہ عمروسے دکان کا حساب کتاب لیتا۔ جب بکر کی اولاد بالغ ہوئی تو اس نے حساب کتاب لینا چاہالیکن عمرو نے صاف انکار کیا اور اس دکان کا خود مالک بن بیٹھا۔ چوں کہ بکر کی اولاد کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے اس لیے وہ عمروکو دکان سے ہٹانہیں سکتے۔ عمرونے اسی ناجائز کمائی سے اس سال حج بھی کیا ہے۔ ازروئے شرع جواب مرحمت فرمائیے کہ

۱- جائداد کے وارث بکر کے لڑکے ہیں یا عمروہے؟

۲- یتیم اور بیوہ کی جائداد ہڑپ کرنے کے عوض قیامت میں عمرو کو کس قسم کی سزا ملے گی؟

۳- عمروکا حج ہوا یا نہیں ؟

جواب

 ۱- ازروئے شرع اس دکان کے وارث بکر کے لڑکے ہیں ۔ زید کے ترکے میں ازروئے شرع عمرو کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

۲- غاصبانہ قبضے کی سزا بہت سخت ہوگی ۔ دوزخ میں کس قسم کا عذاب دیاجائے گا یہ بتانا مشکل ہے، لیکن وہ سزا بہت سخت ہوگی۔

۳- اگر عمرو نے غاصبانہ کمائی سے حج کیا ہے تو وہ حج مقبول نہ ہوگا۔

وہاں کے ذی اثر لوگوں سے مدد لیجیے اورعمرو کو سمجھانے کی کوشش کیجیے۔ اللہ کا واسطہ دیجیے اور عذاب آخرت سے ڈرائیے۔ شاید اس پراثر ہو اور وہ مصالحت پر آمادہ ہوجائے، ورنہ صرف فتویٰ لینے سے کام نہیں چلے گا۔                                        (مارچ اپریل۱۹۷۴ء ج۵۲ش۳۔۴)