کفاء ت کا مسئلہ

شادی بیاہ کے معاملے میں کفو کا مسئلہ ہمیشہ رہا ہے۔ شاید ہمارے فقہاء کے یہاں اس پر بڑا زور ہے۔ اب اس پر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے یا نہیں ۔ براہِ کرم واضح فرمائیں کہ فقہاء کا نقطۂ نظر فی الواقع کیا ہے؟ اس مسئلہ میں ہم آپ کی رائے بھی جاننا چاہتے ہیں ۔
جواب

کفاء ت کے مسئلہ میں بہت اختصار کے ساتھ ذیل میں گفتگو کی کوشش کی جائے گی۔
کفاء ت کا سوال عورت کے سلسلے میں پیدا ہوتا ہے مرد کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ وہ اپنے سے کم تر حیثیت کی عورت سے نکاح کرسکتا ہے البتہ زیادہ تر فقہاء کرام کے نزدیک عورت کا نکاح اس کی حیثیت یا اس سے برتر حیثیت کے مرد سے ہونا چاہیے ورنہ وہ اسے اپنی ذلت محسوس کرے گی اور ازدواجی تعلقات پر اس کا خراب اثر پڑے گا۔
فقہ حنفی میں کہا گیا ہے کفاء ت کا اعتبار پانچ چیزوں میں کیا جاتا ہے۔ وہ یہ ہیں : نسب، آزادی، دین داری، مال اور صنعت و حرفت۔
نسب کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ قریش اور غیر قریش، عرب و عجم، ایک دوسرے کے برابر نہیں ہیں ۔ اس لیے ایک قریشی عورت کا کفو غیر قریشی مرد نہیں ہے۔ اسی طرح جو عورت عرب سے تعلق رکھتی ہے، عجم کا رہنے والا اس کا کفو نہیں ہے۔
ایک تقسیم قدیم الاسلام اور جدید الاسلام کی بھی کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے نو مسلم کو خاندانی مسلمان کے مساوی نہیں قرار دیا گیا ہے۔
جہاں تک آزادی اور غلامی کا سوال ہے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی باندی آزاد ہو جائے اور اس کا شوہر غلام ہو تو اسے حقِ خیار حاصل ہوگا، وہ چاہے تو غلام شوہر سے اس کا نکاح فسخ ہوجائے گا۔۱؎
اس کی وجہ یہ ہے کہ جو غلام ہے وہ آزاد عورت کا کفو نہیں ہے۔
فقہ حنفی میں کہا گیا ہے کہ جو شخص خاندانی طور پر آزاد چلا آرہا ہے اس کا کفو وہ شخص نہیں ہے جسے یا جس کے باپ کو غلامی سے آزادی ملی ہے۔
دین کے معاملہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی بے دین اور فاسق و فاجر شخص دین دار خاندان کی خاتون کا کفو نہیں ہے۔
مال کے متعلق کہا جاتا ہے کہ مالی لحاظ سے کم زور شخص دولت مند عورت کا کفو نہیں ہے۔
سماج میں بعض پیشوں کو اعلیٰ اور بعض کو ادنیٰ ہمیشہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس بنیاد پر وہ افراد اور خاندان جنھوں نے اعلیٰ پیشے اختیار کیے یا جن کو یہ حاصل رہے ان کو برتر قرار دیا گیا اور ان افراد اور خاندانوں کو ان کا کفو نہیں سمجھا گیا، جن کے پاس ادنیٰ یا معمولی پیشے تھے۔ اس کی بڑی تفصیلات ہیں کہ کس پیشے کو کس پیشے پر برتری حاصل ہے اور کن پیشوں کے درمیان کفاء ت ہے اور کن پیشوں کے درمیان کفاء ت نہیں ہے۔۲؎
اس پورے مسئلہ پر ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جاسکتا ہے۔
اسلام نے وحدت بنی آدم کا تصور دیا ہے۔ اس کے نزدیک خاندان اور قبیلہ محض تعارف کا ذریعہ ہیں ۔ انسانوں کے درمیان فضیلت اور برتری کا معیار تقویٰ اور خدا ترسی ہے۔ (الحجرات:۱۳)
رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے بے نظیر خطبے میں اعلان فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے۔ ہاں جس کے اندر تقویٰ اور خداترسی ہوگی وہ صاحب فضیلت ہے۔۱؎
کہا جاسکتا ہے کہ اس کا تعلق آخرت سے ہے۔ وہاں فیصلہ عرب و عجم، گورے اور کالے کی بنیاد پر نہیں بلکہ تقویٰ کی بنیاد پر ہوگا، اس میں دنیا کے معاملات کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن حدیث اس خیال کی تائید نہیں کرتی ہے۔ وہ بہ ظاہر دنیا و آخرت دونوں ہی سے متعلق ہے۔ آخرت میں بھی اور اس دنیا میں بھی معیار فضیلت تقویٰ ہی ہے۔ یہ ہر دوسری چیز پر مقدم ہے۔
کفاء ت کا سوال نکاح کے سلسلے میں پیدا ہوتا ہے اس ذیل میں رسول اللہؐ کا ارشاد ہے:
تنکح المرأۃ لِاَربع لمالھا و لحسبھا وجمالھا و لدینھا فاظفر بذات الدین تربت یداک۲؎
عورت سے نکاح چار چیزوں کی خاطر کیا جاتا ہے، اس کے مال کی خاطر، اس کے حسب کی خاطر، اس کے حسن کی خاطر اور اس کے دین کی خاطر۔ تم دین والی کو حاصل کرکے کامیاب ہوجاؤ۔ (ورنہ) تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں (ناکام رہوگے)۔
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ عام طور پر لوگ مال و دولت، حسب نسب اور حسن و جمال کو اہمیت دیتے ہیں ۔ لیکن ایک صاحبِ ایمان کی نظر، دین داری اور تقویٰ پر ہونی چاہیے اور اسے ہر دوسری چیز کے مقابلے میں دین داری ہی کو اہمیت دینی چاہیے۔ اسی میں اس کی کامیابی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ بات مرد سے کہی گئی ہے۔ کیا اس سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ عورت کے معاملے میں بھی دین دار شخص کو ہر دوسرے شخص پر ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔
اب آئیے فقہاء کے خیالات پر غور کیا جائے۔ کفاء ت کے مسئلے میں جو تفصیلات اوپر پیش کی گئی ہیں وہ فقہ حنفی کی ہیں ۔ ان سب پر دیگر فقہاء کا اتفاق نہیں ہے۔ بعض بنیادی امور میں ان کے درمیان اختلافات ہیں ۔ بعض باتیں فقہاء نے اپنے زمانے کے پیش نظر کہی ہیں ۔ موجودہ حالات میں جوں کا توں ان کا اطلاق مشکل ہے۔ اس لیے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ان خیالات کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لیا جائے۔
امام مالک اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک کفاء ت صرف دین میں دیکھی جائے گی، باقی چیزوں کی بنیادی اہمیت نہیں ہے۔ چناں چہ ان کے نزدیک موالی (آزاد کردہ غلاموں ) کا نکاح عرب خواتین سے ہوسکتا ہے۔ اس پر انھوں نے سورۂ حجرات کی مذکورہ بالا آیت سے استدلال کیا ہے۔ ۱؎ خاص بات یہ کہ فقہائے احناف میں امام کرخیؒ ان کے ہم خیال ہیں ۔۲؎
علامہ ابو بکر جصاص کی بھی یہی رائے ہے۔ عراق میں دوسرے مشائخ حنفیہ نے بھی ان کی اس رائے کو اختیار کیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ شاید اس کی تائید میں امام ابو حنیفہؒ کا کوئی قول ان کے پاس رہا ہو۔۳؎
فقہ حنفی میں کفاء ت کے مسئلہ میں سب سے زیادہ اہمیت بہ ظاہر نسب کو دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ دین اور اخلاق کی اہمیت کو بھی پوری طرح تسلیم کیا گیا ہے۔ چناں چہ کہا گیا ہے کہ کسی دین دار خاندان کی عورت کا کفو کوئی اخلاق باختہ یا فاسق و فاجر شخص نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ ایک دین دار عورت شوہر کے فسق و فجور سے اس کے ضعفِ نسب کے مقابلہ میں زیادہ عار محسوس کرے گی۔
یہ بات بھی تسلیم کی گئی ہے کہ ایک کم تر نسب کا آدمی علم و فضل کے ذریعہ اعلیٰ نسب کی عورت کا کفو ہوسکتا ہے یہاں تک کہا گیا ہے:
العالم العجمی کفو للجاھل العربی والعلویۃ
ایک عالم جس کا تعلق عجم سے ہے وہ کفو ہے اس جاہل کا جو عربی ہے اور نسباً علوی ہے۔
اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ علم کی فضیلت جاہ و منصب اور دیگر خوبیوں سے بہت زیادہ ہے۔۱؎
پیشوں کے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں موجودہ حالات میں ان کی معنویت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ آج یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ ایک شخص کسی حقیر پیشے سے تعلق رکھنے والے خاندان میں پیدا ہوا اور وہ تعلیم پاکر آگے نکل گیا۔ اسے یا اس کی اولاد کو باپ دادا کے پیشے سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ ہوسکتا ہے کئی پشتوں سے تعلق نہ ہو، سوال یہ ہے کہ کیا پھر بھی اس کے خاندانی پیشے کی وجہ سے اسے کم تر تصور کیا جائے گا؟بہ ظاہر یہ نہیں ہونا چاہیے۔ پھر کیوں وہ کسی سید زادی یا قریشی عورت کا کفو نہیں رہا۔ اگر علم کی فی الواقع اہمیت ہے تو اسے کفو ماننا چاہیے۔
اب صنعتوں کی بھی شکلیں بدل گئی ہیں یہ بھی دیکھا جا رہا ہے جو پیشے کم تر درجے کے سمجھے جاتے تھے اعلیٰ نسب کے افراد انھیں اختیار کر رہے ہیں ۔ سادات سے تعلق رکھنے والے لانڈری چلاتے ہیں ۔ انھیں کوئی شخص دھوبی نہیں سمجھتا۔ اسی طرح ٹیلرنگ کو جن لوگوں نے بہ طور صنعت اختیار کیا ان کو درزی نہیں خیال کیا جاتا، فرض کیجیے اعلیٰ نسب کا کوئی شخص کپڑے کا کارخانہ قائم کرتا ہے یا بڑے پیمانے پر کپڑے کا کاروبار کرتا ہے اسے بزاز (پارچہ فروش) نہیں کہا جاتا۔ قدیم فقہاء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس کاریگر ہوں اور وہ سلائی کا کام کر رہا ہو تو وہ درزی نہیں کہلائے گا۔ یہ صورت آج عام طو رپر دیکھی جاتی ہے۔
فقہ میں مال کی اہمیت بھی تسلیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے:
ان الناس یتفاخرون بالغنی و یتعیرون بالفقر۱؎
لوگ دولت و ثروت پر فخر کرتے ہیں اور غربت و احتیاج سے شرم محسوس کرتے ہیں ۔
اسی بنیاد پر امیر اور غریب کو کفو نہیں سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں مالی وسائل پر قدیم زمانے کی طرح اعلیٰ طبقات کا قبضہ نہیں رہ گیا ہے۔ جن طبقات کو کم تر سمجھا جاتا ہے اس کے افراد آج ترقی کرکے پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور سائنٹسٹ بن رہے ہیں اور اعلیٰ مناصب پر پہنچ رہے ہیں ۔ اس طرح کے کسی فرد کا کسی کمپنی کا منیجر یا انڈسٹری کا مالک ہونا بھی تعجب خیز نہیں رہ گیا ہے۔ آج کی دنیا میں خود عورت بھی حسب نسب سے زیادہ مال و دولت ہی کو دیکھتی ہے۔ وہ ایک قریشی اور ہاشمی کے مقابلے میں کسی ایسے شخص کو ترجیح دے گی، جو حسب نسب میں چاہے اس سے کم تر ہو لیکن اس کی مالی حیثیت مستحکم ہو۔ ان حالات میں ولی کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
کفاء ت کے حق میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ عدم کفاء ت کی صورت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ٹھیک رہنا مشکل ہے۔ بلاشبہ اس کی اہمیت ہے۔ جہاں اس کا اندیشہ ہو وہاں ضرور اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کا تعلق حالات سے ہے۔ اگر کسی شریف خاندان کی لڑکی کسی ادنیٰ خاندان کے فرد سے، اس کے علم و فضل اور مالی حیثیت کے باوجود رشتہ پسند نہ کرے تو اسے اس کا حق ہے۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اس پر اسی نقطۂ نظر سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔اسے کوئی قاعدہ کلیہ نہ بنایا جائے۔
کفاء ت کے پورے مسئلہ میں دین داری، تقویٰ اور علم و فضل ہی اصل معیار ہیں ، باقی دولت، پیشہ اورصنعت و حرفت کو ضمنی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے سلسلے میں انسان کا رویہ حالات کے لحاظ سے بدل جاتا ہے۔ اگر ایک شخص خداترس ہے اور علم و فضل کا مالک ہے تو وہ کم تر نسب کے باوجود اعلیٰ نسب کی خاتون کا کفو بن سکتا ہے۔ فقہ میں جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان سے فی الجملہ اس کی تردید نہیں ہوتی۔