بالعموم ہر دکان دار دو قسم کے کھاتے رکھتا ہے۔ ایک تو اس کا نجی کھاتا ہوتا ہے، دوسرا سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے افسران کو دکھانے کے لیے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟اگر نہیں تو تاجر کیا کرے؟ایک صاحب جن کا تعلق میرے بازار سے نہیں لیکن میں انھیں جانتا ہوں ،انھوں نے ایک سال کا پورا حساب انکم ٹیکس کے افسرکے سامنے پیش کیا،ایک پیسے کی بھی انھوں نے چوری نہ کی تھی۔لیکن افسر نے ٹیکس کے علاوہ مزید بھاری رقم ان پر لاد دی، اور شبہہ یہ ظاہر کیا کہ جو حساب اسے دکھایا گیا ہے،وہ صحیح نہیں ہے۔ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے؟
جواب
اس بگڑے ہوئے ماحول میں جو شخص چور اور جعل ساز نہیں ہے،وہ بھی چور اور جعل ساز ہی فرض کیا جاتا ہے،کیوں کہ دنیا اب یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کوئی شخص کاروبار میں سچا اور ایمان دار بھی ہوسکتا ہے۔ایسے بگاڑ کی صورت میں جو لوگ سچائی اور ایمان داری کی راہ چلنے کا عزم کریں ،انھیں اس کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جھوٹے اور بددیانت لوگ تو رشوت دے کر اپنے جرائم کی پاداش سے بچ نکلتے ہیں ، مگر سچے اور ایمان دار آدمی کے لیے یہاں دُہری سزا ہے،ایک سزا سچائی اور ایمان داری سے کام کرنے کی اور دوسری رشوت نہ دینے کی۔یہ سزائیں بھگتنے کی ہمت نہ ہو تو جس بگاڑمیں دنیا مبتلا ہے،آپ بھی اسی میں مبتلا ہوجایئے۔ دنیا اور آخرت میں سے ایک کو انتخاب کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۱ء)