جواب
کسی جماعت کو اس کے معروف نام سے یاد کرنا،جب کہ فی الواقع اس میں توہین کا بھی کوئی پہلو نہ ہو، ناجائز نہیں ہے۔احمدی حضرات نے اپنا نام’’احمدی‘‘پسند کیا ہے،یعنی وہ اپنے آپ کو بانی سلسلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ عرف عام میں ان کا نام’’قادیانی‘‘ رائج ہوچکا ہے۔({ FR 1721 }) یعنی عوام الناس ان کو بانی سلسلہ کے وطن کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں تذلیل وتحقیر کا کون سا پہلو ہے اور یہ خلاف دیانت کیوں ہے۔اگر یہ خلاف دیانت ہے تو وہ سارے ہی عرف ناجائز اور خلاف دیانت قرار پائیں گے جو لوگوں میں رائج ہیں ۔
جماعت اسلامی کے افراد کو ’’مودودیے‘‘کہنے پر ہمیں اس لیے اعتراض ہے کہ ہم اپنے مسلک اور نظام کو کسی شخص خاص کی طرف منسوب کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔’’مودودی‘‘ تو درکنار، ہم تو اس مسلک کو’’محمدیؐ‘‘ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ۔یہ تو’’اسلام‘‘ ہے جس کے موجد ہونے کا شرف کسی انسان کو حاصل نہیں ۔ اس لیے اسے کسی انسان کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔اگر آپ ہمیں ’’نوحیے‘‘یا’’ابراہیمیے‘‘ کہیں گے تب بھی ہمیں وہی اعتراض ہوگا جو’’مودودیے‘‘کہنے پر ہے۔بخلاف اس کے مرزا صاحب اور ان کے متبعین نے اپنے مسلک و جماعت کو خود ہی ایک شخص خاص کی طرف منسوب کیا ہے،اور عوام نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اس شخص کے بجاے اس کے وطن کی طرف انھیں منسوب کردیا۔یہ کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔سلسلۂ چشتیہ بھی بانی سلسلہ کے بجاے ان کے وطن کی طرف منسوب ہوکر مشہور ہوا ہے۔یہی معاملہ سلسلۂ سہروردیہ،سنوسیہ، شطاریہ وغیرہ کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ان سلسلوں کی توہین کا کوئی پہلو ہے۔ رہا لفظ ’’مرزائی‘‘تو البتہ اسے میں پسند نہیں کرتا اور میں نے خود کبھی اسے استعمال نہیں کیا۔اِلاّ یہ کہ کسی نے اپنے سوا ل میں یہ لفظ استعمال کرلیا ہو اور میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے حکایتاً اسے استعمال کرلیا ہو۔ (ترجما ن القرآن، ستمبر۱۹۵۱ء)