کیا اہلِ مکہ حج کےمہینوں میں عمرہ کرسکتے ہیں ؟

میں ایک عرصے سے جدہ(سعودہ عرب) میں مقیم ہوں۔ جدہ اورمکہ مکرمہ میں ہر سال حج کے موقع پردرج ذیل سوال سامنے آتا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی رہ نمائی درکار ہے۔

یہاں مقیم ہندوستانی وپاکستانی حضرات میں مشہور ہے کہ پہلی شوال تاایام حج مکہ میں مقیم لوگ عمرہ نہیں کرسکتے۔ بعض جماعتوں کے بزرگ توباضابطہ منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرنا چاہیے۔ دریافت کرنے پر خاطر خواہ وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ کیا ایسا کوئی فقہی مسئلہ ہے کہ میقات کے اندر رہنے والے لوگ یکم شوال سے ایام حج تک عمرہ نہیں کرسکتے یا نہیں کرنا چاہیے؟

جواب

اصل مسئلہ یہ ہے کہ مکہ معظمہ اوراس کےجوار میں میقات کے اندر رہنے والے لوگ حج تمتع کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ اس مسئلے میں ائمہ فقہ کےدرمیان اختلاف ہے۔ حج تمتع کامسئلہ قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں مذکورہے۔

فَاِذَآ اَمِنْتُمْ۝۰۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۝۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۝۰ۭ تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ۧ                                               (البقرۃ۱۹۶)

’’پھر اگر تمہیں امن نصیب ہوجائے(اورتم حج سے پہلے مکہ پہنچ جائو) تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدورقربانی دے اور اگرقربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھرپہنچ کر،اس طرح پورے دس روزے رکھ لے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔ اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لوکہ اللہ سخت سزادینے والا ہے۔‘‘

حج کا زمانہ آنے تک عمرے سے فائدہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی عمرہ کرکے احرام کھول لے اور ان پابندیوں سے آزاد ہوجائے جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں، پھر جب حج کے دن آئیں تو ازسرنو احرام باندھ لے۔

اوپر نقل کی ہوئی آیت میں ’ذٰلک‘کے مشارالیہ کی تعیین میں ائمہ فقہ کے درمیان اختلاف ہے۔  امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ’ذٰلک‘ کااشارہ تمتع کے حکم کی طرف ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ حج تمتع کی رخصت صرف آفاقی یعنی حدود حرم اور میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے ہے۔ جو لوگ حرم مکہ اور اس کے جوارمیں کسی میقات کے اندر رہتے ہیں وہ حج تمتع نہیں کرسکتے،ان کے لیے خاص طورپر حج افراد ہے۔ اس تفسیر کے برعکس امام مالک وشافعی واحمد رحمہم اللہ کے نزدیک ’ذٰلک‘ کا اشارہ قربانی اور روزے کے حکم کی طرف ہے، یعنی آفاقی اگر حج تمتع کرے تو اس کو ایک جانور کی قربانی دینی ہوگی اور اگر یہ میسر نہ ہوتو اس تفصیل کے ساتھ جو آیت میں ہے دس روزے رکھنے پڑیں گے۔ رہے وہ لوگ جو مکہ اور اس کے جوار میں رہتے ہیں وہ اگر حج تمتع کریں تو ان کے لیے قربانی دینا ضروری نہیں ہے۔ان تینوں ائمہ کی رائے کے مطابق مکہ کے باشندے بھی حج کے مہینوں میں عمرہ اورحج دونوں کو جمع کرسکتے ہیں۔  باشندگان مکہ کے لیے بھی حج کی تینوں قسمیں  افراد، قران اورتمتع جائز ہیں۔ حج افراد میں صرف حج کی نیت کی جاتی اور اسی کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔ حج قران میں حج اور عمرہ دونوں کی نیت کی جاتی اور دونوں کے لیے احرام باندھا جاتاہے۔اور حج تمتع میں پہلے عمرے کی نیت کرکے احرام باندھا جاتاہے، عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول دیاجاتاہے پھر ایام حج میں دوبارہ حج کی نیت سے احرام باندھا جاتاہے۔علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں 

ذالک ای التمتع جائز لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام فلا یجوز التمتع للمکی کذا قال ابوحنیفۃ رحمہ اللہ وعندمالک والشافعی واحمد یجوز للمکی التتمع ایضا لکن لا یجب علیہ الھدی قالوا المشار الیہ بذالک الحکم بوجوب الھدی۔                       (تفسیر مظہری،ج۱،ص ۲۴۳)

’’وہ یعنی تمتع جائز ہے اس کے لیے جس کے اہل وعیال مسجد حرام کے قریب نہ رہتے ہوں۔  پس تمتع مکہ میں رہنے والے کے لیے جائز نہیں۔  یہی ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نےکہا ہے اور مالک، شافعی اور احمد کے نزدیک مکی کے لیے تمتع بھی جائز ہے لیکن اس کے اوپر قربانی واجب نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ذالک کا مشارالیہ وجوب قربانی کا حکم ہے۔‘‘

فقہ شافعی کے مطابق تفسیر جلالین میں ہے۔

ذالک ای الحکم المذکورمن وجوب الھدی اوالصیام علی من تمتع۔

’’وہ یعنی تمتع کرنے والے پر قربانی یا روزے کے وجوب کا حکم جو آیت میں مذکورہے۔‘‘

فقہ مالکی کی کتاب ’المدونہ ‘میں ہے۔

قال ابن القاسم وقال مالک فمن تمتع من اھل مکۃ فی اشھر الحج وقران فلاھدی علیہ۔                         (المدونہ،ج۱،ص۳۰۰)

’’ابن قاسم نےکہا اور امام مالک کا قول یہ ہے کہ اہل مکہ میں سے جس شخص نے حج کے مہینوں میں تمتع یا قران کیا تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔‘‘

سورۂ البقرہ کی آیت ۱۹۶میں حاضری المسجدالحرام سے مراد کون لو گ ہیں ؟ اس کی تعیین میں بھی ائمہ فقہ کےدرمیان اختلاف ہے۔ امام مالک کے نزدیک اس سے مراد صرف مکہ مکرمہ کے باشندے ہیں۔  امام شافعی کے نزدیک اس سے مراد مکہ اور مکہ سے مسافت قصر کے درمیان رہنے والے لوگ ہیں۔  اورامام ابوحنیفہ کے نزدیک اس سے مراد مکہ اور کسی میقات کے اندر رہنے والے لوگ ہیں خواہ مسافت کتنی ہی ہو۔

یہ اصل مسئلے کی تفصیل تھی۔ اسی اصل کی ایک فرع یہ ہے کہ فقہ حنفی میں یہ تو مسلم ہے کہ مکہ اور میقات کے اندر رہنے والے لوگ حج تمتع نہیں کرسکتے، لیکن سوال یہ ہے کہ حج کے مہینوں (شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ) میں ان کے لیے عمرہ کرنا ہر حال میں ممنوع ہے خواہ وہ اسی سال حج کریں یا نہ کریں یا صرف اس صورت میں عمرہ کرنا ممنوع ہے جب وہ اسی سال حج بھی کریں۔  اس جزئی مسئلے کا جواب یہ ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں ایک قول یہ ہے کہ اہل مکہ اور میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا ہر دوحال میں ممنوع ہے۔ یعنی وہ اسی سال حج کریں یا نہ کریں۔  دوسرا قول یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے عمرہ کرنا اسی وقت ممنوع ہوگا جب وہ اس سال حج بھی کریں۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف عمرہ کرتا ہے اوراس سال حج نہیں کرتا تو اس کےلیے عمرہ کرنا ممنوع نہیں ہے۔

علامہ ابن نجیم اس مسئلے پربحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں 

فالحاصل ان المکی اذا احرم بعمرۃ فی اشھر الحج فان کان من نیتۃ الحج من عامہ فانہ یکون اثمالانہ عین التمتع المنھی عنہ لھم فان حج من عامہ لزمہ دم جنایۃ لادم شکروان لم یکن من نیتہ الحج من عامہ ولم یحج فانہ لا یکون اثما بالاعتمار فی اشھر الحج لانھم وغیرھم سواء فی رخصۃ الاعتمار فی اشھر الحج ومافی البدائع من ان الاعتمار فی اشھر الحج للمکی معصیۃ محمول علی مااذا حج من عامہ۔

(البحرالرائق،ج۲،ص۳۶۶)

’’حاصل بحث یہ ہے کہ اگر باشندۂ مکہ نے حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھا تواگر اس کی نیت اسی سال حج کرنے کی بھی ہے تو وہ گنہ گار ہوگا کیوں کہ یہ عین وہ تمتع ہے جو مکہ والوں کے لیے ممنوع ہے۔ اگر اس نے اس سال حج بھی کرلیا تو اس پر ایک قربانی واجب ہوگی۔ جنایت (جرم) کی بناپر، شکر کے لیے نہیں، اوراگر اس کی نیت اس سال حج کرنے کی نہ ہواور وہ اس سال حج نہ کرے تو وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی وجہ سے گنہ گار نہ ہوگا کیوں کہ مکی اور آفاقی دونوں حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی رخصت میں برابر ہیں اور بدائع میں یہ جو کہاگیا ہے کہ اہل مکہ کے لیے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا معصیت ہے یہ اس پر محمول ہوگا جب وہ اس سال حج بھی کرے۔‘‘

یہی رائے ملا علی قاری کی بھی ہے۔علامہ ابن عابدین نے ایک کتاب کے حوالے سے جواز کی یہ وجہ لکھی ہے۔

کیوں کہ عمرہ پانچ دنوں کو چھوڑ کر پورے سال میں بلاکر اہت جائز ہے۔ اس حکم میں مکی اور آفاقی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ اس کی صراحت نہایہ، مبسوط، بحرمیں ہے اور اخی زادہ، علامہ قاسم اور دوسرے فقہانے کی ہے۔   (منحۃ الخالق، علی البحرالرائق،ص ۳۶۶)

یہی رائے مدلل اورمتون فقہ حنفی کے مطابق ہے۔قدوری میں ہے

ولیس لاھل مکۃ تمتع ولاقران وانما لھم الافراد خاصۃ۔                                                   (قدوری،باب التمتع)

’’اہل مکہ کے لیے نہ تمتع ہے نہ قران، ان کے لیے خاص طورپرحج افراد ہے۔‘‘

اس لحاظ سے ظاہر ہے کہ اہل مکہ کے لیے قران اور تمتع کی ممانعت ہے، پھر یہ بات کہا ں سے نکل آئی کہ اہل مکہ حج کے مہینوں میں صرف عمرہ بھی نہیں کرسکتے؟ قران اورتمتع کی ممانعت تو اس دلیل کی بناپر ہے کہ سورۂ البقرہ کی آیت ۱۹۶میں ذالک کا مشارالیہ حکم تمتع ہے لیکن حج کے بغیر صرف عمرہ کرنے کی ممانعت کےلیے کیا دلیل ہے میرے علم کی حدتک اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اہل مکہ کو عمرہ جیسی عبادت سے ڈھائی مہینے تک محروم رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔اس پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے

۱-فقہ حنفی کے لحاظ سے اہل مکہ اور میقات کے اندر رہنے والے لوگوں کو قران یا تمتع نہیں کرنا چاہیے۔

۲-حج کے مہینوں میں اہل مکہ کو مطلقاً عمرہ کرنے سے روکنا ایک بے دلیل بات ہے۔ البتہ اگران میں کا کوئی شخص حج کا ارادہ رکھتا ہوتو فقہ حنفی کے لحاظ سے اس کو حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرنا چاہیے۔

۳-امام مالک وشافعی واحمدرحمہم اللہ کی فقہ کے لحاظ سےاہل مکہ نہ صرف یہ کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرسکتے ہیں بلکہ وہ قرآن اورتمتع بھی کرسکتے ہیں۔           (جولائی۱۹۸۰ء،ج۶۵،ش۱)