زندگی (بابت ماہ جولائی، اگست ۱۹۵۵ء) کے شمارے میں آپ کا ایک ’ترجمہ‘ پڑھا، یعنی مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے ایک مکتوب کا ترجمہ جو انھوں نے ایک نوجوان کو لکھا تھا، ترجمے کے دوسرے پیراگراف کے خاتمے پرآپ نے ایک نوٹ لکھا ہے۔ جس میں آپ نے یہ عبارت تحریر فرمائی ہے
’’حضرت مجد د کی تحریر کامقصد بھی یہی ہے کہ قانون الٰہی کاعلم اصل ہے اور دوسرے تمام علوم اس کے تابع، ایسا نہ ہوکہ کوئی کتاب وسنت کے علم کو تابع کی حیثیت دے دے یا اس سے بالکل قطع نظر کرلے۔‘‘ (مترجم)
میرے خیال میں اگر آپ اس تشریح کی بجائے مندرجہ ذیل عبارت سے تشریح فرماتے تو وہ بہتر ہوتا
’’.......اگران علوم کو علوم شرعیہ کی تحصیل وتائید کے لیے حاصل کیا جائے تو خیروگرنہ ان کا اشتغال جائز نہیں ۔‘‘
یہ عبارت اس قابل تھی کہ آپ اس پر اپنی خاص عالمانہ نظر ڈالتے ہوئے اس کی تشریح فرماتے۔ کیوں کہ یہ عبارت بری طرح کھٹکتی ہے ! یہ عبارت پڑھنے کے بعد مندرجہ ذیل سوالات میرے ذہن میں ابھرے جن کے جواب کی خاطر جناب کو تکلیف دے رہاہوں
(۱) یہ عبارت واضح کرتی ہے کہ حضرت مجددؒ علوم دنیوی حاصل کرنے کو اس وقت تک ناجائز سمجھتے تھے جب تک کہ یہ علوم، علوم شرعیہ کی تحصیل وتائید کے لیے حاصل نہ کیے جائیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ علوم دنیوی کس حد تک علوم شرعیہ میں کام آتے ہیں ؟ خیر یہ بات بھی توکچھ نہ کچھ سمجھ میں آہی جاتی مگر اس فلسفے کو میری عقل پانے میں ناکام رہی ہے کہ علوم دنیوی سے علوم شرعیہ کی ’تحصیل وتائید‘ کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ دونوں علوم میں زمین وآسمان کا فرق ہے؟
(۲) حضرت مجددؒ کا یہ فتویٰ کن دلائل کی بنا پر تھا؟ موجودہ علمائے کرام علوم دنیوی (مثلاً سائنس، طب، انجینئرنگ وغیرہ) کے سیکھنے اور حاصل کرنے کو جائز کہتے ہیں (خواہ ان علوم سے علوم شرعیہ کی تحصیل وتائید ہویا نہ ہو) تو اس وقت کیا موجودہ علمائے کرام کے فتاویٰ کو بہتراور احسن سمجھا جائے یا کہ حضرت مجددؒ کے مکتوب کی عبارت کو ؟ اگر موجودہ علمائے کرام درست ہیں تو حضرت مجددؒ نے مذکورہ بالا رائے کس بناپر قائم کی تھی؟
(۳) کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے قدیم علماء، صلحاء اورمجددین عظام نے اپنے وقت کی بعض تحریکوں (مثلاًعلوم دنیوی حاصل کرنے کی تحریک) کوصرف اس لیے ناجائز کہاکہ وہ ان کے وقت میں نئی نئی تھیں ؟ حالاں کہ بعد کے علماء اورصلحاء نے انھی چیزوں کے اشتغال کو نہ صرف جائز کہابلکہ بالکل ضروری قراردیا، ایسا کیوں ہوا؟
(۴) قرآن وسنت اوراقوال ائمہ ٔ اربعہ اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا علوم دنیوی کی تحصیل جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو کس صورت میں اور کس حد تک ؟
براہ کرم مندرجہ بالا سوالات کا جواب دے کر اور شکوک وشبہات کاازالہ فرماکر مشکور فرمائیں ۔
جواب
میرے جس نوٹ کا آپ نے حوالہ دیاہے اسے آپ پھر پڑھیں اور نقطے لگاکر جس عبارت کو آپ نے اپنے خط میں حذف کردیا ہے اسے بھی ملاحظہ کریں میرے نوٹ میں اسی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ آپ پھر اس مقام کا بھی مطالعہ کریں جہاں یہ نوٹ لگایا گیاہے۔ حضرت مجدد کی وہ بات وہیں ختم ہوتی ہے جہاں نوٹ لگایاگیا ہے ۔’’ورنہ ان کا اشتغال جائز نہیں ہے‘‘ کے بعد کی عبارت بطوردلیل پیش کی گئی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ نوٹ اس دلیل کے بعد ہی لکھنا چاہیے تھا۔
اس سوال کے بعد اب آپ کے سوالات کے مختصر جواب لکھتا ہوں لیکن سب سے پہلی بات تو مجھے یہ لکھنی ہے کہ اسلامی نظریۂ تعلیم چوں کہ آپ کی نگاہوں سے اوجھل رہااس لیے وہ سوالات آپ کے ذہن میں ابھرے۔ میرا خیال ہے کہ اسلامی نظریۂ تعلیم اگر آپ کے سامنے ہوتا تو یہ سوالات نہ ابھرتے یا پھر آپ انھیں خود حل کرلیتے۔ یہ نظریہ کیا ہے؟ اس کی تفصیلات طویل ہیں ۔ اس کے بجائے کہ میں انھیں لکھوں، میرامشورہ ہے کہ آپ جماعت اسلامی کے لٹریچر کی کتاب ’تعلیمات‘ مطالعہ کرلیں، اس کتاب میں اسلامی نظریۂ تعلیم کی بنیادی تفصیلات موجود ہیں ۔ اصل الجھن جو پیداہوتی ہے وہ دینی اور دنیاوی علوم کی الگ الگ تقسیم کی وجہ سے پیداہوتی ہے، خلافت راشدہ کے بعد جب مسلم معاشرے میں طرح طرح کی خرابیوں نے سراٹھایا تو انھیں میں کی ایک بڑی خرابی یہ تھی کہ علوم کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیاگیا جس نے آخر کار اس نتیجے تک پہنچایا کہ مسلمان کا دین اوراس کی دنیا دو علیحدہ علیحدہ چیزیں بن گئیں، حالاں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ حضرت مجدد کے وقت میں بھی وہ تقسیم موجود تھی اس لیے اسی کے پیش نظر انھوں نے وہ باتیں تحریر فرمائی ہیں ۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت مجدد کے زمانے کی تاریخ اگر آپ پڑھیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی۔ اب سوالات کے مختصر جواب لکھتا ہوں ۔
(۱) آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ ’’علوم دنیوی سے علوم شرعیہ کی تحصیل وتائید کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ دونوں علوم میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔‘‘ یہ محض اس بناپر آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے ذہن میں دینی اور دنیوی علوم کی تقسیم رچی بسی ہوئی ہے اور اس بناپر بھی کہ جو نظام تعلیم ہمارے ماحول پرچھایا ہوا ہے اس کے پیش نظر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ دنیوی علوم کا دین اور شریعت سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے ۔ ویسے اگر آپ تھوڑا غور کریں تو اس ماحول میں بھی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ علوم دنیوی سے علوم شرقیہ کی تحصیل کس طرح ہوسکتی ہے؟ مثال کے طورپر آپ علم الحساب کو لے لیں، علم الحساب دنیوی علوم میں شمار کیاجاتا ہے لیکن کیا اس کے بغیر علوم شرعیہ کی تکمیل ہوسکتی ہے؟ میراث کا علم جسے علوم شرعیہ میں ’علم الفرائض‘ کہاجاتاہے، زیادہ تر علم الحساب پرموقوف ہے۔اگر ہم حساب سے ناواقف ہوں تو کسی ایک شخص کی میراث بھی تقسیم نہ کرسکیں ۔ اسی طرح زکوٰۃ جو ارکان اسلام میں داخل ہے، حساب کے بغیر ادا نہیں کی جاسکتی (یہ دو چیزیں محض بطورمثال پیش کی گئیں ہیں ورنہ شریعت میں حساب کی ہرجگہ ضرورت ہے)۔ اب آپ دیکھ لیجیے کہ علم الحساب سے علوم شرعیہ کی تحصیل ہوتی ہے یا نہیں ؟ اب فرض کیجیے کہ ایک شخص علم الحساب محض اس نیت اور اس مقصد سے حاصل کرتا ہے کہ اس سے سودی کاروبار میں سہولت ہوگی اور موجودہ دورکے بینکوں کی ملازمت حاصل ہوسکے گی اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے عدم جواز کا فتویٰ دیاجائے گا۔ اوراگر اس کامقصد ان فرائض کو ادا کرنے میں سہولت حاصل کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عائد کیے ہیں تو نہ صرف اس کے جواز کا فتویٰ دیاجائے گا بلکہ بقدرضرورت اسے حاصل کرنا ضروری قراردیا جائے گا۔ اب علوم شرعیہ کی تائید کی مثال لیجیے۔ سائنس، جسے مغربی مفکرین نے اپنی خدا بیزاری کی بناپر خالص دنیوی علم بناکر رکھ دیاہے اور جس میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ کہیں سے بھی خدا کا تصورداخل نہ ہونے پائے،اگرآج اس علم سے خدا کی عظمت اورکائنات پراس کی حکیمانہ فرماں روائی کے ثبوت پیش کیے جائیں تو یہ علم علوم شرعیہ کا زبردست موئد بن سکتا ہے اوراس وقت بھی متعدد سائنس داں ایسے پائے جاتے ہیں جنھوں نے اس سے خدا کی عظمت وحکمت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ واقفیت رکھتے ہوں گے، آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ جس علم کو خالص دنیوی قراردے دیاگیا ہے اگر ذرا سا اس کا رخ موڑدیا تو یہ نہ صرف علوم شرعیہ کا موئد بن جائے گا بلکہ خود ایک شرعی علم قرارپائے جائے گا۔
(۲) حضرت مجدد نے علوم دنیوی کی تحصیل کو مطلقاً ناجائز قرارنہیں دیاہے۔آپ ان کی عبارتیں پھر پڑھیں، وہ اس کو امر مباح قراردیتے ہیں اوراس کے اشتغال کو اس وقت ناجائز کہتے ہیں جب تمام کوششیں صرف انھیں علوم کو حاصل کرنے میں لگادی جائیں اورعلوم شرعیہ کو نظر انداز کردیا جائے۔ یہی بات ہے جسے میں نے اپنے نوٹ میں واضح کیاہے۔ مجھے کسی ایسے عالم دین کا پتہ نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ علوم شرعیہ کو نظر انداز کرکے صرف دنیوی علوم کی تحصیل میں اپنی تمام کوششیں صرف کردینا جائز ہے۔
(۳) آپ کا یہ سوال گنجلک ہے۔ صاف سمجھ میں نہیں آیا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ علوم دنیوی کی تحصیل کوئی تحریک نہیں ہے۔ ایسے علوم جن کی شریعت میں مخالفت نہ کردی گئی ہو(مثلاً سحروساحری) ہمیشہ مباح سمجھے گئے ہیں، کبھی کسی نے ان کو مطلق ناجائز نہیں کہاہے۔
(۴) اس کا بھی جواب نمبر (۳) میں آگیا ہے، ان علوم کی تحصیل اس حد تک جائز ہے کہ ایک مسلمان، مسلمان باقی رہے، ایسا نہ ہوکہ وہ دین سے بے نیاز وبے پروا ہوجائے۔ اگر کوئی علم کسی مسلمان کو دین سے بے نیاز وبے پروا کرتا ہے تواس کی تحصیل کا جواز کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔
(مارچ۱۹۵۶ء ج۱۶ش۱)