جماعت اسلامی سے متاثر ایک صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ مترجم قرآن متن کے ساتھ غیرمسلموں کو کیوں دیا جارہاہے؟ان کے نزدیک مترجم قرآن مع متن نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ وہ طاہر نہیں ہوتے؟ ان کو صرف وہ ترجمہ دیا جاسکتا ہے جس میں متن نہ ہو، بلکہ ایسی تفسیر بھی نہیں دی جاسکتی جس میں قرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ لَا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۷۹ۭ (الواقعہ۷۹) آیا ہے۔یعنی نہیں چھوتے بجزپاک لوگوں کے۔ وہ کہتے ہیں کہ کیا قرآن میں اس کے خلاف کوئی آیت ہے؟ میں نے ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے۔ مہربانی کرکے اس مسئلے پرروشنی ڈالیے تاکہ دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔
جواب
اس وقت ہندوستان اورہندوستان سے باہر غیرمسلموں کو قرآن پڑھنے اور اس کو سمجھنے کا ایک اشتیاق پیداہوگیا ہے اور دوسری طرف بے متن صرف ترجمہ قرآن شائع کرنے کو علماء منع کرتے ہیں۔ اب غیرمسلموں تک قرآن پہنچانے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ان کو قرآن سے محروم رکھاجائے؟ شاید اس پہلو پران صاحب نے غور نہیں کیا۔ اسی ضرورت کی بناپر تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لیے قرآن مع ترجمہ غیرمسلموں کو دیے جارہے ہیں۔ سعودی عرب سے بھی لاکھوں کی تعداد میں مترجم قرآن غیرمسلموں کو دیے جارہے ہیں اور یہ کام علمائے دین کررہے ہیں۔
سورۂ واقعہ کی آیت لَا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ کاتعلق اس مسئلے سے نہیں ہے۔ سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس آیت میں ’مطھرون‘ سے مراد فرشتے ہیں۔ اکثر مفسرین قرآن بھی یہی کہتے ہیں۔ دراصل اس آیت میں بھی بعض دوسری آیتوں کی طرح قرآن پرکفار کے الزام کی تردید کی گئی ہے اور ان پرقرآن کی عظمت اورا س کے کلام اللہ ہونے کو واضح کیاگیا ہے۔
یہ مسئلہ کہ قرآن مجید کو طہارت نہ ہونے کی حالت میں چھوسکتے ہیں یا نہیں ؟ قرآن سے ثابت نہیں ہے۔اس کا ذکر حدیث میں ہے۔
اس کے علاوہ جو ائمہ فقہ قرآن کو چھونے کے لیے طہارت ضروری قراردیتے ہیں وہ بھی بعض حالات میں ضرورتاً اس کو طہارت کے بغیر چھونا جائز کہتے ہیں۔ مثلاً بچوں کو تعلیم قرآن کی ضرورت سے مستثنیٰ قراردیاگیاہے۔ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے وضو بھی قرآن کو چھوسکتے ہیں۔ امام مالکؒ کے مسلک میں قرآن کی تعلیم دینے والے استاذوں کے لیے بھی بے وضو قرآن کو چھونا جائزہے۔ یہاں تک کہ اس مسلک میں حائضہ عورت کے لیے بھی تعلیم قرآن کی غرض سے قرآن کو چھونا جائز ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم ہرقل کو جو فرمان بھیجا تھا اس میں یہ آیت لکھی ہوئی تھی يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ(آل عمران۶۴)اس کے معنی یہ ہیں کہ ہرقل کے لیے اس خط کو چھونا جائز تھا جس میں یہ آیت لکھی ہوئی تھی۔ اب غورکرنا چاہیے کہ کیا اشاعت اسلام ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کی بناپر غیرمسلموں کو مترجم قرآن دینا جائز ہو؟ہماری رائے میں ان کو مترجم قرآن دینا۔تاکہ وہ اس کی دعوت سے واقف ہوں۔ نہ صرف جائز بلکہ بے حد ضروری ہے۔
امید ہے کہ اس تفصیل سے واقف ہوکر آپ کے متاثر دوست کا اعتراض ختم ہوجائے گا اور وہ مطمئن ہوجائیں گے۔ (مارچ ؍اپریل ۱۹۸۰ء،ج۶۴،ش۳۔۴)