کیا مکان کا کرایہ سود ہے؟

, ,

یوپی کے ایک اردو ہفتہ وار میں جس کا مزاج دینی ہے ایک مضمون نظرسے گزرا جس میں مکانات کرایہ پرچلانے کے کاروبار کو سودی کاروبار کہاگیا ہے اور کرایہ مکان کو سود قراردیاگیا ہے۔ اور دلیل صرف یہ دی گئی ہے کہ کرایہ مکان کی صورت میں مالک مکان کو جو رقم ملتی ہے اس میں اس کو نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف اپنے سرمایہ کا معاوضہ حاصل کرتاہے۔

مہربانی کرکے بتائیں کہ کیا کرایہ مکان کا کاروبار سودی کاروبار ہے اور کیا مکان کا کرایہ سود ہے؟

جواب

کرایہ پر مکانات دینے کے کاروبار کو سودی کاروبار قراردینا اور کرایہ مکان کو سود سے تشبیہ دینا بالکل غلط ہے۔ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے کہ جو مسائل شرعیہ اور فقہ سے بالکل ناواقف ہو۔ دینی مزاج کے ہفتہ وار میں یا تو پڑھے بغیر یا مسائل سے ناواقفیت کی بناپر شائع کیاگیا ہوگا۔ ہمارے نزدیک دینی مسائل میں اصل ماخذ عقل نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت ہے۔
پہلے یہ بات سامنے رکھیے کہ کرایہ پرمکان دینے کا تعلق تجارت یعنی خریدوفروخت سے نہیں ہے بلکہ اجارے سے ہے۔اور شرعی اصطلاح میں ’اجارہ‘ تجارت نہیں ہے بلکہ ایک خاص قسم کا معاملہ ہے۔ اس حقیر نے اپنی کتاب ’عشروزکوٰۃ اور سود کے چند مسائل ‘ میں کرایہ مکان ہی کے ایک مسئلہ کے ذیل میں لکھا ہے
’’اجارہ اور تجارت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تجارت میں اشیا کا لین دین ہوتا ہے۔ خریدار اس چیز کا مالک ہوجاتاہے جسے اس نے خریدا۔ اور بائع اس چیز یا رقم کا مالک ہوجاتاہے جس کے عوض اس نے اپنی کوئی چیز بیچی۔ اوراجارے میں کرایے پرکوئی شے حاصل کرنے والا اس شے کامالک نہیں ہوتا بلکہ اس سے صرف وہ منفعت حاصل کرتاہے جس کے لیے اس نے اجرت دی ہے۔ وہ شے جوں کی توں آجر(کرایہ پرکوئی چیز دینے والا ) کی ملکیت میں رہتی ہے۔‘‘ (ص۴۴،ط دوم )
دوسری طرف سودی کاروبارکاتعلق اصلاً قرض کے لین دین اور تجارت یعنی خریدوفروخت سے ہے۔ اس فرق سے معلوم ہوا کہ کرایہ کے معاملے کو سودی کاروبار کہنا غلط ہے۔
اجارے کا ثبوت قران کریم میں بھی ہے اور احادیث نبوی میں بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکل کرمدین پہنچے تھے او روہاں حضرت شعیب کی صاحب زادی سے نکاح کیا اور دس برس کے بعد پھر مصر واپس آگئے تھے۔ میں صرف وہ آیتیں یہاں لکھتا ہوں جس میں اجارے کا ذکر ہے۔
۱-قَالَتْ اِحْدٰىہُمَا يٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُ۝۰ۡاِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْـتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ۝۲۶
(القصص۲۶)
’’ان دونوں عورتوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا۔ ابا جان ! اس شخص کو ملازم رکھ لیجیے۔ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں وہی ہوسکتا ہے جو مضبوط اورامانت دارہو۔‘‘
’استیجار‘ کے معنی کسی شخص یا کسی چیز کو اجرت پر حاصل کرنا۔ حضرت شعیب کی کسی ایک صاحب زادی نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا اجیر(ملازم یا مزدور) بنالیں۔
۲-قَالَ اِنِّىْٓ اُرِيْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَـتَيَّ ہٰتَيْنِ عَلٰٓي اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰـنِيَ حِجَجٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ۝۰ۚ (القصص۲۷)
’’ان کے والد نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں بشرطے کہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں ملازمت کرو اور اگردس سال پورے کردوتو یہ تمہاری مرضی ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ شرط منظور کرلی اور پھر نکاح ہوگیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے دس سال تک اجرت پرکام کیا۔اس کے بعد اپنے اہل وعیال کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔
ان آیتوں میں اجارے پرکسی شخص کی خدمات حاصل کرنے کا صریح ثبوت موجود ہے۔
۳- حضرت خضر نے جب اس بستی میں جس کے باشندوں نے حضرت موسیٰ وخضرعلیہما السلام سے بے حد غیرشریفانہ رویہ اختیارکیاتھا، ایک گرتی ہوئی دیوار کودرست کردیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا
لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَيْہِ اَجْرًا۝۷۷ (الکہف۷۷)
’’اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ مزدوری بھی ٹھہرالیتے۔‘‘
اس آیت سے بھی معلوم ہواکہ اجارے پر کام کرکے اجرت حاصل کرنا صحیح ہے۔
احادیث نبوی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی آخرسیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس بکریاں چراکر اس کی اجرت لی ہے اور دوسرے کو ان کی خدمت پراجرت بھی عطا فرمائی ہے۔
۱-عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مَابَعَثَ اللہُ نَبِیًّا اِلّارَعَی الْغَنَمَ فَقَالَ اَصْحَابُہٗ وَاَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللہِ ؟قَالَ کُنْتُ اَرَعٰی عَلٰی قَرَارِیط لِاَھْلِ مَکَّۃَ۔
(تفسیر مظہری،ج۹،بحوالہ بخاری)
’’ابوہریرہؓ نبیؐ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا  اللہ نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا الا یہ کہ انہوں نے بکریاں چرائی ہیں۔ صحابہؓ نے پوچھا اور آپ نے بھی یارسول اللہ؟ آپؐ نے فرمایا میں چند قیراط کے معاوضہ پراہل مکہ کے لیے بکریاں چراتا تھا۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رعی الغنم یعنی بکریاں چرانے کا کام تمام انبیاءکرام علیہم السلام نے کیا ہے اور آپؐ نے اس کام پر اجرت حاصل کرنے کی صراحت بھی فرمائی ہے۔
۲-عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنّ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ حَجَمَہٗ عَبْدٌلِبَنِیْ بَیَاضَۃَ فَاعْطَاہٗ اَجْرَہٗ وَکَلَّمَ سَیِّدَہٗ فَخَفّفَ عَنْہٗ مِنْ ضَرِیْبَۃَ وَلَوْ کَانَ سَحْتًا لَمْ یُعْطِہِ۔
(جمع الفوائد کتاب البیوع بحوالہ بخاری،مسلم، ابودائود)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بنی بیاضہ کے ایک غلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھنا لگایا توآپؐ نے اس کام کی اجرت عطاکی اوراس کے آقا سے سفارش کی تو اس نے اس غلام پرجو رقم مقررکی تھی اس میں تخفیف کردی اور اگر حجامت کی اجرت حرام ہوتی تو آپؐ کبھی اس کی اجرت نہ دیتے۔‘‘
یہ حدیث امام ترمذی نے بھی روایت کی ہے۔اس میں ہے کہ غلام کا نام ابوطیبہ تھا اور آپؐ نے اجرت میں دوصاع طعام (کھجور) عطافرمایا تھا۔ قرآن کریم کی یہ آیتیں اور احادیث نبوی’اجارہ‘ کے ایک صحیح اور جائز معاملہ ہونے کےلیے اصل ماخذ ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ کن چیزوں کا اجارہ صحیح ہے اور کن چیزوں کا صحیح نہیں ہے تو جس اجارے کی صحت پرفقہائے امت کا اتفاق ہے وہ یہ ہے
واتفقوا علی اجارۃ الدور والد واب والناس علی الافعال المباحۃ وکذالک الثیاب والبسط۔ (بدایہ المجتہد، کتاب الاجارات)
’مباح اور جائز افعال پرگھروں، جانوروں اورانسانوں کے اجارے پر فقہا کا اتفاق ہے۔ اسی طرح کپڑوں اورفرش فروش پر بھی اتفاق ہے۔‘
اس عبارت میں سب سے پہلے مکانات کے اجارے کی صحت پرفقہاء کا اتفاق ظاہر کیا گیا ہے۔
کرایہ مکانات کے کاروبار کو سودی کاروبار اور کرایہ مکان کو سود قراردینے کی جاہلانہ بات اس حقیر کے سامنے پہلی دفعہ آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو معاف کرے جس نے ایسی بات لکھی ہے۔ شریعت نے جن معاملات کو جائز قراردیا ہے ان کو کسی خود ساختہ دلیل سے ناجائز نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے یہ دلیل بھی غلط ہے کہ مالک مکان کو کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔مکانات بوسیدہ ہوتےرہتے ہیں، ان کو مرمت کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرمت پرجتنی رقم خرچ کرنی پڑتی ہےوہ اس کرایہ سے زیادہ ہوجاتی ہے جو مالک مکان کو ملتاہے۔ (اکتوبر ۱۹۸۳ء،ج۷۱،ش۴)