جواب
مجھے آپ کے عزیز عہدے دار کے خیالات معلوم کرکے بڑا افسوس ہوا۔اﷲ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، اور آپ کو ان کے اثر سے محفوظ رکھے۔ اگر آپ نے میری کتابوں کا مطالعہ کیا ہوتا تو آپ ان کی سب باتوں کا جواب بڑی اچھی طرح دے سکتے تھے۔ اب بھی میں آپ کو مطالعہ کرکے تیار رہنے کا مشورہ دوں گا۔ کیوں کہ خط وکتابت میں اتنے بڑے بڑے مسائل کو سمجھانا بڑا مشکل ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص کی قوتِ فکر مائوف نہ ہو،وہ کبھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ کوئی قانون اور نظم (law and order)کسی نافذ کرنے والے اقتدار (authority) کے بغیر بھی نافذ ہوسکتا ہے اور جاری رہ سکتا ہے۔ کائنات میں قانون اور نظم موجودہے۔ اس کا انکار تو کسی طرح کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اب کیا عقل یہ باور کرسکتی ہے کہ اتنے بڑے لامحدود پیمانے پر لا محدود مدت تک یہ قانون اور نظم کسی اقتدار کے بغیر ہی چل رہا ہے ۔کوئی غیر متعصب عقل تو اسے باور نہیں کرسکتی۔ مگر دو باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے اچھے خاصے ہوش مند انسان اس نادانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ایک یہ کہ ان کی فکر ونظر کا ظرف بہت تنگ ہے جس کے باعث وہ اس عظیم الشان اقتدار کاتصور کرنے سے عاجز رہ گئے ہیں جو اتنی بڑی کائنات میں نظم اور قانون کو ازل سے ابد تک چلا رہا ہے۔دوسرے یہ کہ وہ اس کو ماننا چاہتے ہی نہیں ہیں ۔کیوں کہ اس کو مان لینے کے بعد ان کے لیے دنیا میں من مانی کرنے کی آزادی باقی نہیں رہتی۔
یہ تو خدا کے متعلق ان کے تصور کی غلطی ہے۔ لیکن جو حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ، ان سے عرض کیجیے کہ اتنے بڑے بڑے مسائل پر سوچنے اور اظہار راے کرنے والے آدمیوں کو کم ازکم ایمان دار (honest) تو ہونا چاہیے۔ آپ لوگ تو اس صفت سے بھی خالی ہیں ۔ آپ خدا اور رسول اور قرآن کے متعلق جو باتیں کرتے ہیں وہ اسلام کے بالکل خلاف ہیں ، مگر اس کے باوجود آپ مسلمان بنے پھرتے ہیں اور مسلم معاشرے کو دھوکا دینے میں آپ کوئی تأمل نہیں کرتے۔ اگر آپ ایمان دار ہوتے تو جس وقت آپ نے یہ آرا قائم کی تھیں ، اسی وقت اسلام سے اپنی علیحدگی کااعلان کردیتے اور اپنے نام بھی تبدیل کرلیتے تاکہ مسلم معاشرہ آپ سے دھوکا کھا کر آپ کے ساتھ وہ معاملات جاری نہ رکھتا جو وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ رکھنا پسند نہیں کرتا۔اس صریح جعل سازی اور فریب کے بعد آپ کی کسی راے کو وہ وقعت دینا جو صرف ایمان دار اور مخلص آدمیوں کی آرا ہی کو دی جاسکتی ہے،ہمارے لیے سخت مشکل ہے۔ (ترجمان القرآن، جون۱۹۶۲ء)