’’گناہ گار مومن ‘‘اور ’’نیکوکار کافر‘‘ کا فرق

آج کل ایف ایس سی کی ایک طالبہ نہایت ہی ذہین مسیحی لڑکی میرے پاس انگریزی پڑھنے آتی ہے۔ وہ تقریباً روزانہ مجھ سے مذہبی امور پر تبادلہ خیالات کرتی ہے۔ میں بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرنے کی کوشش کرتا ہوں بحمداللّٰہ کہ میں نے دین اسلام کے بارے میں اس کی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے۔ لیکن ایک دن اس نے میرے سامنے ایک سوال پیش کیا جس کا جواب مجھے نہ سوجھ سکا۔ ازاں بعد میں نے آپ کی تصانیف سے بھی رجوع کیا مگر تاحال کوئی شافی اشارات وہاں سے نہیں مل سکے۔ میری مسیحی شاگرد کہنے لگی کہ میں نے میٹرک میں اسلامیات کے کورس میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان چاہے کتنا ہی بڑا گناہ گار ہو وہ کچھ عرصہ دوزخ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخرکار ضرور جنت میں چلا جائے گا مگر کافر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ پھر وہ کہنے لگی آپ ہمیں بھی کافر ہی سمجھتے ہیں ۔ کوئی عیسائی خواہ وہ کتنا ہی نیکوکار ہو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دوزخ ہی میں جائے گا، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب

آپ اپنی شاگرد کو پہلے یہ بات سمجھائیں کہ گناہ گار مومن اور نیکوکار کافر کے درمیان فرق کی بنیاد کیا ہے۔ مومن اللّٰہ تعالیٰ کی فرماں برداری قبول کرکے اس کے وفادار بندوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اپنی اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے وہ کسی جرم یا بعض جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ اس کے برعکس کافر دراصل ایک باغی ہوتا ہے اور آپ کے کہنے کے مطابق اگر وہ نیکوکار ہو بھی تو اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس نے بغاوت کے جرم پر کسی اور جرم کا اضافہ نہیں کیا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص باغی نہیں ہے اور صرف مجرم ہے اسے صرف جرم کی حد تک سزا دی جائے گی، بغاوت کی سزا اس کو نہیں دی جا سکتی، کیونکہ جرم کرنے کی وجہ سے کوئی شخص وفادار رعیت کے زمرے سے خارج نہیں ہو جاتا۔ لیکن بغاوت بجاے خود سب سے بڑا جرم ہے، اس کے ساتھ اگر کوئی شخص دوسرے جرائم کا اضافہ نہ بھی کرتا ہو تو اسے وہ حیثیت کسی طرح نہیں دی جا سکتی جو وفادار رعیت کو دی جاتی ہے۔ وہ بغاوت کی سزا بہرحال پاکر رہے گا خواہ وہ اس کے علاوہ کسی جرم کا ارتکاب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ باغی ہونے کے ساتھ کچھ جرائم کا مرتکب بھی ہو تو اسے بغاوت کی سزا کے ساتھ ان دوسرے جرائم کی سزا بھی دی جائے گی۔
اس اصولی بات کو جب وہ سمجھ لیں تو ان کو بتائیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی وفادار و فرماں بردار رعیت میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کو کسی قسم کے شرک کی آمیزش کے بغیر اور اللّٰہ کے سب پیغمبروں کو کسی استثنا کے بغیر، اور اللّٰہ کی بھیجی ہوئی کتابوں کو کسی کا انکار کیے بغیر مانتے ہوں اور آخرت کی جواب دہی کو بھی تسلیم کرتے ہوں ۔ ان میں سے جس چیز کو بھی آدمی نہ مانے گا وہ باغی ہوگا اور اسے خدا کی وفادار رعیت میں شمار نہ کیا جا سکے گا۔ اب مثال کے طورپر رسولوں اور کتابوں ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔ حضرت عیسیٰ ؈ اور ان کی انجیل کو جب یہودیوں نے نہ مانا تو وہ سب باغی ہو گئے، اگرچہ حضرت عیسیٰؑ سے پہلے کے انبیا اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کو وہ مانتے تھے۔ اسی طرح حضرت محمد ﷺ کی آمد سے پہلے تک حضرت عیسیٰؑ کے پیرو اللّٰہ کی وفادار رعیت تھے۔ لیکن جب انھوں نے آں حضرت ﷺ اور قرآن کو ماننے سے انکار کر دیا تو وہ بھی باغی ہوگئے۔ مسیح ؑ اور انجیل اور سابق انبیا اور ان کی کتابوں کو ماننے کے باوجود وہ اللّٰہ کی وفادار رعیت میں شمار نہیں ہوسکتے۔
یہ بات بھی جب وہ سمجھ لیں تو انھیں بتائیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی جنت باغیوں کے لیے نہیں بنائی ہے بلکہ اپنی وفادار و فرماں بردار رعیت کے لیے بنائی ہے۔ اس وفادار رعیت میں سے اگر کوئی شخص کوئی ناقابل معافی جرم کرتا ہے یا اس نوعیت کے بہت سے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اسے اس کے جرائم کے مطابق سزا دی جائے گی اور جب وہ اپنی سزا بھگت لے گا تو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ لیکن جس نے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے وہ کسی طرح جنت میں نہیں جا سکتا۔ اس کا مقام بہرحال دوزخ ہے۔ دوسرے کسی جرم کا وہ مرتکب نہ بھی ہو تو بغاوت بجاے خود اتنا بڑا جرم ہے جس کے ساتھ کوئی نیکی بھی اسے جنت میں نہیں پہنچا سکتی۔ (ترجمان القرآن، اگست۱۹۷۵ء)