۲-عقائد سے متعلق چند سوالات

ایک پرچے سے دس سوالات نقل کرکے بھیج رہاہوں۔ ان کے جوابات جاننے کی انتہا سے زیادہ خواہش ہے۔ ان کے جوابات مجھے کہیں نہیں ملے۔ مہربانی کرکے آپ ان کے جوابات ضرور دیں۔ یہ سوالات ’مسلمانوں سے عصر جدید کامطالبہ ‘ کے عنوان سے شائع کیےگئے ہیں۔

۱-کیا یہ بات درست نہیں کہ حقیقت کائنات مادہ ہے اور روح مادہ کی ایک خاصیت ہے جو اس وقت رونما ہوتی ہے جب مادہ اپنی ترقی اور ترکیب کی ایک خاص حالت پرپہنچ جاتاہے؟

۲-کیا یہ بات درست نہیں کہ مذہب محض معاشی حالات کی پیداوار ہے اور خود اپنی کوئی قدروقیمت  نہیں رکھتا ؟

۳-کیا انسان کی زندگی کا معاشی پہلو عملی تاریخ کا محرک نہیں اور کیا مذہب اس عملی تاریخ کی ایک عارضی حالت اور ضمنی یا اخلاقی پیداوار نہیں ؟

۴-کیا مذہب دبی ہوئی حالت جنس یارکی ہوئی حب تفوق یا اٹکی ہوئی غلبہ اور قوت کی خواہش کا غیرفطری اور بے محل اظہار نہیں ؟

۵-کیا مذہب ایک ظالم سوسائٹی کا مصنوعی دبائو نہیں جو اپنی سلامتی کی خاطر فرد کو مجبورکرتی ہے کہ وہ کچھ غیرفطری پابندیوں اوررکاوٹوں کو جنہیں وہ مذہبی اوراخلاقی اصولوں کا نام دیتی ہے،اپنے آپ پر عائد کرے؟

۶- کیا یہ درست نہیں کہ عمدگی اخلاق نسبتی اصطلاح ہے جس کے معنی مختلف قوموں کے لیے اور مختلف حالات کے اندرمختلف ہوتے ہیں ؟

۷-کیا ممکن ہے کہ خدا کسی انسان پروحی نازل کرے یا کوئی انسان سچ مچ نبی بن جائے؟

۸- کیا نبوت(اگردرحقیقت ممکن ہے) ایک ایسا عارضی واقعہ نہیں جو نوع انسانی کی تا قیامت ترقی کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟

۹- کیا انسان کی عقل اسے اپنانیک وبد سمجھانے کے لیے کافی نہیں کہ کسی بیرونی رہ نمائی کی ضرورت ہو؟ جب انسان کو عقل دی گئی ہے تواس کو نبوت کی خاص ضرورت کیا ہے؟

۱۰- اگرنبوت کوئی ضروری چیز ہے تو یہ ختم کیوں ہوگئی ہے۔ اور تاقیامت انسان کی رہ نمائی کے لیے نئے نئے انبیاءکیوں نہیں آتے رہتے ہیں ؟

جواب

آپ کا بھیجا ہوالفافہ ملا۔ آپ نے جو سوالات ایک پرچے سے نقل کیے ہیں، ان کے جو ابات آپ نے کہاں سے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی ؟ کیا آپ کسی کتاب میں ان کے جوابات ڈھونڈھ رہے تھے یا کسی شخص سے ان کے جوابات دریافت کیے تھے؟
اس قسم کے سوالات جن میں بعض کامطلب بھی سمجھ میں نہیں آتا اور جن کی عبارتیں تک درست نہیں ہیں۔ ان کے جوابات آپ کو کہیں نہیں ملیں گے۔یہ توصرف اس لیے شائع کیے جاتے ہیں کہ ناواقف مسلمانوں کے عقائد ڈگمگاجائیں اور وہ الجھن میں مبتلا ہوں۔ یہ سوالات آپ نے شاید کسی کمیونسٹ پرچے سے نقل کیے ہوں گے۔میں محض اس خیال سے کہ اس طرح کے سوالات بعض دوسرے ذہنوں میں بھی الجھن پیداکرسکتے ہیں، ان کے مختصر جوابات دے رہاہوں۔
اس طرح کے سوالات جو لوگ قائم کرتے ہیں اس میں فن کاری یہ ہوتی ہے کہ وہ سب سے اول اور بنیادی سوال کو حذف کردیتے ہیں تاکہ سوالات پڑھنے والا ان میں الجھ کررہ جائے۔آپ نے جو سوالات بھیجے ہیں ان کا حال بھی یہی ہے۔
سب سے پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کائنات کاکوئی خدا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ کائنات آپ سے آپ بن گئی ہے۔ اور آپ سے آپ چل رہی ہے؟ سب سے پہلے اس سوال کا جواب ملنا چاہیے۔اگر یہ سرانہ ملے تو الجھی ہوئی ڈوری سلجھ نہیں سکتی۔
اگر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہاں، اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے۔ یہ آپ سے آپ بن گئی ہے اور آپ سے آپ چل رہی ہے تو پھر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ’مذہب‘ انسان کے ذہن کی گھڑی ہوئی چیز ہے۔ پھر نہ نبوت کوئی چیز ہوگی،نہ وحی،نہ آخرت اور نہ اس کی کوئی اور چیز۔ کیوں کہ مذہب ونبوت وغیرہ کا تعلق خداہی سے ہے۔جب خدا ہی نہیں تو پھر مذہب کہاں اور نبوت کہاں ؟ لیکن کیا اس جواب کو انسان کی عقل قبول کرتی ہے؟ ہماری عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ کائنات آپ سے بن گئی ہے اور آپ سے آپ چل رہی ہے۔اس لیے اوپر کے سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ کائنات نہ آپ سے آپ بنی ہے اورنہ بن سکتی تھی۔ اسی طرح یہ نہ آپ سے آپ چل رہی ہے اور نہ چل سکتی تھی بلکہ اس کائنات کا ایک خدا ہے، وہی اس کا بنانے والا ہے اوراس نے پوری حکمت کے ساتھ اس کو بنایا ہے اور وہی اس کو کنٹرول کررہاہے۔ یہ جواب صرف ہماری عقل کا نہیں ہے بلکہ تاریخ کے ہردورمیں کروڑوں عاقل انسانوں نے اس کا یہی جواب دیاہے۔ اس کے علاوہ خدا کے وجود کا احساس فطرت انسانی کا ایک واقعہ ہے جس کا انکاردھاندلی کی بناپرتوکیاجاسکتا ہے ورنہ کوئی مصنف مزاج آدمی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
جب خدا ہے اور یقیناً ہے تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے انسانوں جیسی ایک عاقل مخلوق بے مقصد پیدا کردی ہے؟ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے؟عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کیوں کہ خدا حکیم ہے؟اور اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔یہ کائنات اس نے الل پٹ نہیں بنائی ہے۔ انسان جیسی مخلوق اس نے بے مقصد، عبث او ربے کار پیدا نہیں کی ہے۔ یقیناً انسانی زندگی کا مقصد نہیں بتاسکتی اور بتائوں تو میراجواب غلط ہوگا کیوں کہ میں تو خود مخلوق ہوں اور مخلوق کو یہ کیا معلوم کہ خالق نے اسے کس مقصد سے پیداکیا ہے؟ یہ بتانے کا حق خالق ہی کو ہے کہ اس نے کوئی مخلوق کس مقصد سے پیدا کی ہے اور اسی کا جواب صحیح جواب ہوسکتا ہے۔ کسی مخلوق کو اس کا حق نہیں ہے کہ اپنی تخلیق کا مقصد خود طے کرلے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ محض اپنی عقل سے جن لوگوں نے زندگی کا مقصد طے کیا ہے وہ یکساں نہیں ہے۔کسی نے کوئی مقصد طے کیا ہے کسی نے کوئی دوسرا۔ اور مقاصد کےاختلاف سے دنیا میں بڑا انتشار پہلے بھی پھیلا ہے اورآج بھی پھیلا ہوا ہے۔ یہاں تک تو انسان کو خود اس کی عقل پہنچادیتی ہے۔ آگے کا مرحلہ یہ ہے کہ کیسے معلوم ہوکہ اللہ نے انسان کو کس مقصد سے پیدا کیا ہے؟ وہ ہمیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے؟ کن باتوں سے روکتا ہے اور ہمیں دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے کیا ہدایات دیتا ہے؟ یہی مرحلہ ہے جس میں عقل کو خارجی رہ نمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یعنی نبوت ورسالت اور وحی الٰہی کی ضرورت اسی مرحلے میں پیش آتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت، رحمت اور انصاف کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کو بتائے کہ انھیں اس نے کس مقصد سے پیدا کیا ہے اور انھیں اس دنیا میں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے؟ چناں چہ اس نے اپنی مہربانی سے نبوت ورسالت کا سلسلہ جاری کیا اور اس دنیا میں بہت سے پیغمبربھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ پھر اس سلسلے کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پرختم کیا۔ اب قیامت تک نہ کوئی نبی ورسول آنے والا ہے اور نہ کوئی کتاب نازل ہونے والی ہے۔
آپ چوں کہ مسلمان ہیں اس لیے ان باتوں کو صحیح تسلیم کرتے ہوں گے۔ آپ کے لیے ان سوالات کے صحیح جوابات حاصل کرلینا یا ان کو سمجھ لینا مشکل نہ ہوگااور اگر کوئی شخص ان باتوں کو صحیح تسلیم نہیں کرتا ہے توپہلے انھیں باتوں پرگفتگو ہونی چاہیے۔کیوں کہ ان باتوں کو مانے بغیر ان سوالات کے صحیح جوابات حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ اب میں اوپر کہی باتوں کو سامنے رکھ کر ان سوالات کے نمبروار مختصر جوابات عرض کرتاہوں۔
۱- یہ بات درست نہیں ہے کہ حقیقت کائنات صرف مادی ہے بلکہ کائنات میں مادہ بھی پایا جاتاہے اور روح بھی۔روح مادہ سے ایک علیحدہ شے ہے، مادہ کی ترقی اورترکیب سے وجود میں نہیں آتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیداہوتی ہے۔ سائنس داں بھی اس کائنات میں غیرمادی اشیا کے قائل ہیں۔ مثال کے طورپرتوانائی کووہ غیرمادی کہتے ہیں، بلکہ اب توسائنس یہ ماننے پرمجبورہورہی ہے کہ حقیقت کائنات مادی نہیں ہے۔ اس کی تفصیل جاننے کے لیے کتاب ’مذہب اور سائنس‘ مولفہ مولانا عبدالباری ندوی شائع کردہ مجلس تحقیقات ونشریات اسلام،ندوۃ العلماءلکھنؤ کا مطالعہ کیجیے۔
۲-یہ بات غلط ہےکہ مذہب معاشی حالات کی پیداوارہے۔ حقیقی مذہب اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایات ہی کا نام حقیقی مذہب ہے۔ معاش زندگی کا صرف ایک شعبہ ہے اور مذہب زندگی کے تمام شعبوں پرحاوی ہے۔ حقیقی قدروقیمت مذہب کی ہے،نہ کہ معاش کی۔معاش ہی کو سب کچھ سمجھ لینا اس غلط فہمی پرمبنی ہے کہ کائنات مادہ کے سواکچھ نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو اب سائنس بھی دورکررہی ہے۔
۳- معلوم نہیں اس سوال سے سائل کا مقصد کیا ہے؟ بہرحال جیسا کہ اوپر کہاگیا ہے حقیقی مذہب خدا کی طرف سے بھیجاہواایک مستقل ہدایت نامہ ہے، یہ کوئی ضمنی چیز یا حالات کی پیداوار نہیں ہے۔
۴- اس سوال کا جواب بھی اوپر آگیا۔حقیقی مذہب تو یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ کا ہے۔ انسان اس کا بندہ، اس کاخلیفہ اور اس کا محکوم ہے۔ تمام انسانوں کو خداکی بندگی اور اطاعت کرنی چاہیے۔انسانی اقتدارِ اعلیٰ کا نظریہ ہی دراصل تمام اختلافات ونزاعات کی جڑہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ مذہب غلبہ اور قوت حاصل کرنے کی خواہش کانام ہے۔ بالکل غلط ہے۔مذہب انسان کو جنسی تونس میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ جنسی خواہش کو پورا کرنے کے تمام غیرفطری طریقوں کو حرام قراردیتاہے۔
۵-’مذہب‘ دنیا سے ظلم کو مٹانے آیا ہے اوراس کی لگائی ہوئی تمام پابندیاں انسان کو انسان بنانے کے لیے ہیں۔ مذہب کو چھوڑکر انسان، انسان باقی نہیں رہتا، بلکہ حیوان ہوجاتاہے۔
۶- یہ سوال بھی واضح نہیں ہے۔ یہ سمجھنا کہ اچھے اخلاق محض اضافی چیزیں ہیں جو مختلف قوموں میں بدل جاتے ہیں، غلط ہے۔ مثال کے طورپر انسانی ہمدردی اورغریبوں کی مدد ایک انسانی قدر ہے جو مختلف قوموں اور مختلف حالات میں بدلتی نہیں ہے۔
۷-(کم سے کم ساتویں نمبر پرسائل کو خدا یاد آہی گیا) یہ ممکن ہی نہیں بلکہ واقعہ ہے کہ خدا نے انسانوں پروحی نازل کی ہے اور بہت سے انسان خدا کے پیغمبرہوتے ہیں۔ اگر سوال کرنے والا خدا کو مانتا ہے تو اس کو اتنا بے بس کیوں مانتا ہے کہ کسی انسان پروہ اپنی وحی نازل نہ کرسکے۔
۸- نبوت ممکن ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا ناقابل انکار واقعہ ہے جو تاقیامت نوع انسانی کی ہمہ جہتی ترقی کے لیے اتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے بغیر انسان کا انسان باقی رہنا بھی دشوار ہے۔ علاوہ ازیں اس دنیا کے بعد جو دنیا آنے والی ہے جس کو ہم قیامت اور آخرت کہتے ہیں اس میں تو کوئی انسان نبوت کے پیغام پرعمل کیے بغیر کام یاب ہوہی نہیں سکتا۔
۹- بے شک انسان کی عقل نیک وبد میں تمیز کرتی ہے اورکرسکتی ہے۔ لیکن تنہا عقل یہ نہیں جان سکتی کہ خدا کے نزدیک نیک وبد کیا ہے؟ وہ کن چیزوں سے خوش ہوتا اور کن چیزوں سے ناراض ہے؟اس نے انسان کو کیوں پیدا کیا ہے اور وہ انسان سے کیا چاہتا ہے؟ اس لیے عقل رکھنے کے باوجود اس کی ضرورت ہے کہ یہ سب باتیں اس کو بتائی جائیں۔ نبوت اسی ضرورت کی تکمیل کرتی ہے۔
۱۰- اس کو یوں سمجھیے کہ ایک بچے کا جسم اور اس کی عقل دونوں نشوونماپاتے رہتے ہیں۔ اس کا جسم بھی بڑھتا رہتاہے اور عقل بھی، یہاں تک کہ وہ جب مکمل طورپر بالغ ہوجاتا ہے تواس کے جسم کی نشوونما بھی رک جاتی ہے اور عقل بھی مکمل ہوجاتی ہے۔ اب کوئی یہ کہے کہ جسم وعقل کا بڑھنا اگرکوئی ضروری چیز ہے تو بالغ ہونے کے بعد ان کی بڑھوتری کیوں رک جاتی ہے تو اس کا جواب کیا ہوگا؟ یہی کہ جس حدتک ان دونوں کو بڑھنا تھا بڑھ چکے،اب اور بڑھنے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ اسی طرح جب بحیثیت مجموعی انسانیت اس مرحلے میں داخل ہوگئی جس کو ہم بالغ ہونے سے تعبیر کرسکتے ہیں تو اللہ نے اپنا آخری نبی بھیج دیا اور اپنا آخری ہدایت نامہ قرآن کریم نازل کردیا۔ اب قیامت تک کسی نبی کی ضرورت نہیں کیوں کہ اللہ کا آخری ہدایت نامہ موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔جس نبی پرقرآن نازل کیاگیا اس پر انھوں نے خود عمل کرکے دکھایا ہے اوران کا اسوہ ونمونہ قیامت تک کے لیے تاریخ میں محفوظ ہوگیا ہے۔ اب کسی نبی کے آنے کی کیا ضرورت باقی رہی؟ (جون ۱۹۷۳ء، ج ۵۰، ش۶)