ایک صاحب نے تہتر فرقوں والی حدیث کا ذکر کرکے اپنے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ ’’عبرت کامقام ہے کہ مسلمان کلمہ طیبہ پڑھ کر، نماز پڑھ کر، روزہ رکھ کر اور حج وزکوٰۃ ادا کرکے بھی جنت نہ پائے گا۔‘‘ آپ اس حدیث کا صحیح مفہوم بیان کرکے ان کے شبہے کو دور کریں۔ وہ اس حدیث کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی کہتے ہیں اور پھر اپنےشبہے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
جواب
ابودائود میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہماسے تہتر فرقوں والی جو حدیث روایت کی گئی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے
’’حضرت معاویہؓ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اورکہا کہ خوب سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا خوب سن لو کہ تم سے پہلے اہل کتاب بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور یہ (ملت اسلامیہ ) تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ان میں سے بہتر فرقے دوزخ میں ہوں گے اور ایک فرقہ جنت میں اور یہ جنتی فرقہ ’الجماعۃ‘ ہے۔ ‘‘
(باب شرح السنۃ)
الجماعۃ سے مراد کیا ہے۔ اس کی تشریح ترمذی کی ایک روایت سے ہوجاتی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ جب صحابہ نے پوچھا کہ وہ جنتی فرقہ کون ہوگا تو حضورؐ نے فرمایا مَااَنَاعَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ یعنی جنتی وہ فرقہ ہوگا جو عقیدہ وعمل کی اس روش پرقائم رہےگا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ علم عطافرمایا کہ آئندہ امت مسلمہ بھی دین میں اسی طرح تفرقہ اندازی کی مرتکب ہوگی جس طرح اہل کتاب نے اس کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ امت بھی بہت سے فرقوں میں بٹ جائے گی اور یہ سوال پیدا ہوگا کہ ان بہت سے فرقوں میں کون سافرقہ حق پر ہے۔حضورؐ نے اس حدیث میں آئندہ پیداہونے والے اس سوال کا جواب بھی دیا ہے اور مسلمانوں کو متنبہ بھی کیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی طرح دین میں تفرقہ اندازی نہ کریں اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔ ابودائود نے اس حدیث کو ’شرح السنہ‘ کے باب میں درج کیا ہے اور مشکوٰۃ نیز احادیث کے دوسرے مجموعوں میں اسے باب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں درج کیاگیا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان دین میں بدعتیں رائج نہ کریں، اپنی خواہشاتِ نفس پرنہ چلیں بلکہ کتاب وسنت کو رہ نمابنائیں، اسے مضبوطی سے تھا میں اور اس روش پرقائم رہیں جس پر حضورؐ اور آپ کے صحابہ قائم تھے۔ جو شخص یا جو گروہ بھی اس راستے سے ہٹ جائےگا وہ گم راہ ہوجائے گا۔
یہ ظاہر ہے کہ گم راہی کے مدارج ہوتے ہیں۔ ایک گم راہی ایسی ہوسکتی ہے جو کسی شخص یا گروہ کو دائرہ اسلام ہی سے خارج کردے اور بعض اس سے کم درجے کی ہوسکتی ہے۔ ناجی اور جنتی ہونے کے دومفہوم ہیں ایک یہ کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچالیا جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے اور دوسرا یہ کہ دوزخ میں سزا بھگت کرجنت میں داخل کیاجائے۔اس حدیث میں جس گروہ کے جنتی ہونے کا ذکر ہے وہ پہلے مفہوم میں ہے۔ جن بہتر فرقوں کے بارے میں فرمایاگیا ہے کہ وہ دوزخ میں ہوں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سب کے سب کافروں کی طرح مخلد فی النار ہوں گے۔ یہ حدیث اس مسئلے سے بحث نہیں کرتی کہ کون مخلد فی النار ہوگا اور کون نہیں۔ اس کا فیصلہ دوسرے دلائل سے کیا جائے گا۔
اس حدیث پرشبہے کی جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس سے واضح نہیں ہوتا کہ فی الواقع شبہہ ہے کیا؟ اگر شبہہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سب کے سب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہیں تو پھراس حدیث میں انھیں کافروں کی طرح مخلدفی النار کیوں کہاگیا ہے توجیسا کہ اوپر عرض کیاگیا اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس حدیث میں اس مسئلے سے تعرض ہی نہیں کیاگیا ہے اور اگر وہ صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ محض کلمہ پڑھ لینے اور ارکان اربعہ پرعمل کرلینے سے کوئی شخص یا گروہ جنت کا اولین مستحق بن جاتا ہے تو انھیں اپنے اس خیال کی اصلاح کرلینی چاہیے۔ کیوں کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور نماز روزہ حج زکوٰۃ پرعمل کرلینا دوزخ سے بچنے اور جنت کا اولین مستحق بننے کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے حسن نیت اور صحت عمل بھی ضروری ہے۔ نیز تضادوتناقض اور ان چیزوں سے بچنا بھی ضروری ہے جو انسان کو دوزخ کامستحق بنادیتی ہیں۔ مثال کے طورپر ایک شخص نماز بھی پڑھتا ہے اورقبر بھی پوجتا ہے۔ روزہ بھی رکھتا ہے اور اسی حال میں جھوٹ بھی بولتا ہے اورد نگافساد بھی کرتاہے۔ کسی محتاج کو اپنی زکوٰۃ اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کا احسان مند ہوگا اور بوقت ضرورت اس کی خدمت کرے گا۔ حج کو اس نیت سے جاتا ہے کہ وہاں سے چوری چھپے ارزاں چیزیں لاکر خوب نفع کمائے گا۔ وہ کلمہ بھی پڑھتا ہے اور چورکا ہاتھ کاٹنے کو ظلم اور وحشیانہ سزا بھی سمجھتا ہے۔ اس بدعقیدگی، بدنیتی اوربدعملی کے ساتھ ساتھ کلمہ پڑھنا اور نماز وروزہ، حج وزکوٰۃ کی نمائش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کو تو اپنے کلمہ اور عبادات کاجائزہ لینا چاہیے کہ وہ اس کے لیے باعث نجات ہیں یا وبال ہیں ؟ (نومبر ۱۹۷۱ء، ج۴۷،ش۵)