آپ نے رسائل ومسائل[سوال نمبر۳۳۰] میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ کے نزدیک انگریزی طرز کے بال شرعاًممنوع نہیں ہیں ۔ آپ نے لکھا تھا کہ جو چیز ممنوع ہے وہ یا تو فعل قزع ہے یا وضع میں تشبّہ بالکفار ہے،اور انگریزی طرز کے بال ان دونوں کے تحت نہیں آتے۔ مگر آپ کا جواب بہت مختصر تھا اور اس میں آپ نے اپنے حق میں دلائل کی وضاحت نہیں کی۔ خصوصاً قزع کی جو تعریف آپ نے بتائی ہے ،اس کی تائید میں آپ نے کسی متعین حدیث یا اقوال صحابہ وائمہ میں سے کسی قول کو نقل نہیں کیا۔ اسی طرح عہد نبوی میں غیر مسلموں کے اجزاے لباس کے اختیار کیے جانے کا آپ نے ذکر تو کیا ہے لیکن وہاں بھی آپ نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ متعلقہ حوالہ جات کو بھی ترجمان میں نقل کردیں تاکہ بات زیادہ صاف ہوجائے۔ آپ کی توضیح کے مطابق اس طرز کے بال رکھنا حرام تو نہیں لیکن آپ کا ذوق انھیں پسند بھی نہیں کرتا۔ کیا جو وضع اہل دین کے نزدیک ناپسندیدہ ہو مگر حرمت کے درجے میں نہ ہو، اس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی تدابیر اختیار نہیں کی جا سکتیں ؟
جواب

کسی چیز کو شرعی حیثیت سے ناجائز کہنے کے لیے دو امور میں سے ایک کا پایا جانا ضروری ہے۔ یا تو بعینہٖ اس چیز کے متعلق کوئی حکم کلام شارع میں موجود ہو، یا شارع کی دی ہوئی کسی اصولی ہدایت کے تحت وہ ناجائز قرار پاتی ہو۔ اگر ان دونوں امور میں سے کوئی بھی نہ ہو تو ایسی چیز کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا خوا وہ کسی شخص یا کسی گروہ کے مذاق پر کتنی ہی گراں ہو۔اس قاعدۂ کلیہ کے تحت جب ہم تحقیق کرتے ہیں کہ انگریزی طرز کے بالوں کی شرعی حیثیت کیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا وجوہِ تحریم میں سے کوئی بھی یہاں نہیں پائی جاتی۔سر کے بالوں کے متعلق نص صریح میں جس چیز کی ممانعت وارد ہوئی ہے،وہ قزع ہے، اور قزع کی جو تعریف ائمۂ حدیث وفقہ نے بیان کی ہے، وہ یہ ہے :
یُّحْلَقُ بَعْضُ رَأسِ الصَّبِیِّ وَیُتْرَکُ بَعْضٌ({ FR 1922 }) ’’یہ کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ مونڈا جائے اور کچھ حصہ چھوڑدیا جائے۔‘‘
إِذَا حَلَقَ الصَّبِيَّ وَتَرَكَ هَا هُنَا شَعَرَةً وَهَا هُنَا وَهَا هُنَا فَأَشَارَ لَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ إِلَى نَاصِيَتِهِ وَجَانِبَيْ رَأْسِهِ [...] بِهِمَا وَلَكِنَّ الْقَزَعَ أَنْ يُتْرَكَ بِنَاصِيَتِهِ شَعَرٌ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ غَيْرُهُ وَكَذَلِكَ شَقُّ رَأْسِهِ هَذَا وَهَذَا({ FR 1923 })
’’جب کہ بچے کا سر اس طرح مونڈا جائے کہ صرف پیشانی پر اور سر کے دونوں جانب بال چھوڑ دیے جائیں ۔(پھر دوبارہ پوچھنے پر مزید تشریح کی کہ)… مگر قزع یہ ہے کہ پیشانی کے بال چھوڑ کر باقی سارا سر مونڈ دیا جائے، اور اسی طرح یہ کہ سر کے ان ان حصوں کو چھوڑ کر باقی سر مونڈ دیا جائے ۔‘‘
ابودائود کی روایت میں یہ تشریح خود نبیﷺ کے ارشاد سے مستنبط ہوتی ہے۔ اس میں ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور کچھ حصے پر بال چھوڑ دیے گئے تھے۔ حضور ﷺ نے اس فعل سے منع کیا اور فرمایا: اِحْلِقُوْا کُلَّہٗ أَوْ اُتْرُکُوْا کُلَّہٗ({ FR 1924 }) ’’یاتو پورا مونڈ دو یا پورے سر کے بال چھوڑ دو۔‘‘
اس سے یہ بات متعین ہوگئی کہ شریعت میں جو چیز بعینہٖ ممنوع ہے،وہ کچھ مونڈنا اور کچھ رکھنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کا اطلاق ان بالوں پر نہیں ہوتا جو آج کل انگریزی بالوں کے نام سے مشہور ہیں ۔
اب رہ گیا دوسرا امر کہ شارع کی کسی اصولی ہدایت کے تحت ان بالوں کو ناجائز قرار دیا جائے، تو وہ اصولی ہدایت صرف نہی تشبہ والی ہدایت ہوسکتی ہے جس کے اس معاملے پر منطبق ہونے کا دعویٰ کرنا ممکن ہے۔ لیکن اس معاملے میں تحقیق طلب امر یہ ہے کہ تشبہ سے مراد کیا ہے؟آیا تشبہ مجموعی وضع وہیئت ہی میں ہوتا ہے یا جزوی طور پر بھی ہوسکتا ہے؟ اس سوال کی تحقیق میں جب ہم حدیث پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ جزوی طور پر غیر مسلم قوموں کی کوئی چیز لے کر اپنی وضع ومعاشرت میں شامل کرلینے کو ناجائز نہیں سمجھتے تھے۔مثال کے طور پر شلوار ایران کی چیز تھی جو عرب پہنچ کر سراویل کے نام سے موسوم ہوئی او رنبیﷺ نے اس کے استعمال کو نہ صرف جائز رکھا بلکہ خود بھی استعمال فرمایا۔
چنانچہ بخاری میں ابن عباس ؓکی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
مَنْ لَّمْ یَجِدْ اِزارً فَلْیَلْبِسْ سَرَاوِیلَ({ FR 2045 }) ’’جس کو تَہمَت نہ ملے وہ شلوار پہن لے۔‘‘ اور معتبر روایات سے ثابت ہے کہ حضورﷺ نے شلوار خود بھی خریدی تھی اور آپؐ کے زمانے میں آپؐ کی اجازت سے مسلمان بھی اس کوپہنتے تھے۔({ FR 1800 }) اسی طرح بُرنُس کے استعمال کو آپؐ نے نہ صرف جائز رکھا تھا بلکہ ایک صحابی کوخود تحفتاً دی تھی، اور قرن اوّل کے قراء میں اس کا استعمال عام تھا،({ FR 2166 }) حالاں کہ یہ عیسائی راہبوں کی ٹوپی تھی۔ اسی بِنا پر سلف میں سے بعض حضرات نے اس کے استعمال کو مکروہ بھی سمجھا تھا۔ لیکن امام مالکؒ نے اس کے اس خیال کی صاف صاف تردید فرمائی ۔
اسی طرح حضور ﷺ نے مختلف اوقات میں ایسے جبے بھی استعمال فرمائے ہیں جو غیر مسلم قوموں سے درآمد ہوئے تھے۔چنانچہ معتبر احادیث سے آپؐ کا جبۂ شامیہ،({ FR 2167 }) جبۂ رومیہ({ FR 2168 }) اور جبۂ کسروانیہ({ FR 2169 }) پہننا ثابت ہوتا ہے۔ حالاں کہ جبۂ شامیہ یہودیوں کے لباس کا جز تھا،جبۂ رومیہ کیتھولک عیسائیوں کا لباس تھا اور جبۂ کسروانیہ ایرانی فیشن کی چیز تھی۔ ان تمام روایات سے یہ بات ناقابل انکار طور پر ثابت ہوتی ہے کہ غیر مسلم قوموں کے تمدن،معاشرت اور وضع و ہیئت میں سے متفرق اجزا لے کر(بشرطیکہ ان میں سے کوئی چیز بذات خودحرام نہ ہو) اپنی معاشرت میں داخل کرلینا تشبہ نہیں ہے۔ بلکہ تشبہ کا اطلاق صرف اس چیز پر ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان اپنے آپ کو بحیثیت مجموعی کسی غیر مسلم قوم کی وضع و ہیئت میں ڈھال لے،حتیٰ کہ اسے دیکھ کر ایک ناواقف آدمی یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ مسلمان ہے۔ اب یہ صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی مجموعی وضع مسلمانوں کی سی معروف وضع رکھتا ہو اور اس میں صرف انگریز ی بال اس کے سر پر ہوں تو اسے تشبہ کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔
بلاشبہہ میرے اپنے مذاق پر بھی اب یہ بال گراں ہیں اور اسی لیے میں نے ان کو چھوڑ دیاہے۔لیکن یہ بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ حدود حلا ل وحرام اور چیز ہیں ،اور وہ مذاق اور چیز ہے جو اسلامی ذہنیت کی نشو ونما سے اُبھرتا ہے۔ان دونوں چیزوں کو خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ہم ایک اسلامی نظام میں جس چیز کو ضابطے کے طور پر حکماً نافذ کرسکتے ہیں ،وہ صرف حدود حلال وحرام ہیں ۔
رہا وہ مذاق جو اسلامی ذہنیت کے ارتقا سے ہم میں پیدا ہوتا ہے، تو اوّل تو ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام اہل ایمان میں متفق علیہ ہو۔دوسرا اگر وہ متفق علیہ بھی ہو تب بھی ہمیں اس کو’’شریعت‘‘ قرار دینے کا حق نہیں ہے۔ شریعت تو صرف ان احکام کا نام ہے جو کتاب وسنت میں منصوص ہوں ۔منصوصات سے ماورا جو اجتہادی یا ذوقی امور ہوں ،ان کو رائج کرنے کے لیے استدلال، تعلیم ،تربیت وغیرہ کے ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں مگر ان کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ ( ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۵۶ء)