ڈاڑھی کے متعلق نبی ﷺ کی احادیث ِ صحیحہ موجود ہیں جن میں آپؐ نے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔اس سے لازم آتا ہے کہ ڈاڑھی کو مطلقاً بڑھایاجائے۔آپ کترنے کی گنجائش نکالنا چاہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ ابن عمرؓکی روایت کے بموجب ایک مشت تک کٹوا دیں ۔اس سے زیادہ کم کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ باقی جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ صحابہؓ وتابعین کے حالات میں ان ڈاڑھیوں کی مقدارکا ذکرکہیں شاذ ونادر ہی ملتا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سلف میں یہ مسئلہ اتنی اہمیت نہیں رکھتاتھا جو آج اسے دے دی گئی ہے، تو اس کے متعلق گزارش ہے کہ اصل میں قرونِ ماضیہ میں لوگ اس کے اس قدر پابند تھے کہ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔آپ کو معلوم ہے کہ آج سے چند سال پہلے عام مسلمان ڈاڑھی کے نہ صرف مونڈوانے بلکہ کتروانے تک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پس اس چیز کی وقعت اور قدر لوگوں کے دلوں سے کم نہ کیجیے بلکہ بحال رہنے دیجیے۔
جواب

جو باتیں آپ نے ڈاڑھی کے متعلق تحریر فرمائی ہیں ،ان پر میں اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بحث کرچکا ہوں اب خواہ مخواہ ایک ہی بات کو متھے جانے سے کچھ فائدہ نہیں ۔صاف بات یہ ہے کہ اگر کسی فروعی مسئلے میں میرے دلائل سے آپ کا اطمینان ہوجائے تو بہتر ہے، اوراطمینان نہ ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ،آپ اس معاملے میں میری راے کو غلط سمجھ کر ردّ کردیں اور جو کچھ خود صحیح سمجھتے ہوں ،اس پر عمل کریں ۔ اس قسم کے جزوی مسائل میں ہم مختلف رائیں رکھتے ہوئے بھی ایک ہی دین کے پیرو رہ سکتے ہیں اور اس دین کی اقامت کے لیے مل کر کام کرسکتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن ،فروری۱۹۴۶ء)