گزارش یہ ہے کہ حکمت ومصلحت شرعی کا تقاضا ہے کہ فروعی مسائل اور ظواہر سنن کی تغییر وتبدیل پر ابتدء ً اصرار نہ کیا جائے اور نہ خود عملاًایسا طرزاختیار کیا جائے جس سے مسلمانوں میں توحش وتنفر پیدا ہو۔ اسی وجہ سے رسول اﷲ ﷺ قتلِ منافقین اور تغییربناے کعبہ سے محترز رہے ۔مجھے یہ تسلیم ہے کہ اِعفا اور تقصیرِ لحیہ کے بارے میں سلف میں اختلاف پایا جاتا ہے اور جو طرز ِعمل آپ نے اختیار کیا ہے،اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ادھر مقدار قبضہ تک اعفا کے جواز سے آپ کو بھی انکار نہ ہوگا۔پھر کیا یہ مناسب اور حکیمانہ فعل نہ ہوگا کہ عوام کو توحش سے بچانے کے لیے آپ بھی اسی جواز پر عمل کرلیں ، کیوں کہ ظاہری وضع قطع میں جو غلو کی صورت ہے،اس کی اصلاح بنیادی اُمور اور مہمات مسائل کے ذہن نشین کرانے کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی سے مخلصانہ وابستگی اور دلی تعلق کی بِنا پر یہ چند سطور لکھ رہا ہوں ۔اُمید ہے کہ غور فرمائیں گے۔
جواب

ڈاڑھی کے متعلق جو آپ نے تحریر فرمایا ہے،اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ میں اپنے عمل سے اس ذہنیت کو غذا دینا پسند نہیں کرتا جس نے بدعت کو عین سنت بنا دینے تک نوبت پہنچا دی ہے۔میرے نزدیک کسی غیر منصوص چیز کو منصو ص کی طرح قرار دینا اور کسی غیر مسنون چیز کو(جو اصطلاح شرعی کے لحاظ سے سنت نہ ہو)سنت قرا ردینا بدعت ہے اور ان خطرناک بدعتوں میں سے ہے جو معلوم ومعروف بدعتوں کی بہ نسبت زیادہ تحریف دین کی موجب ہوئی ہیں ۔ اسی قبیل سے یہ ڈاڑھی کا معاملہ ہے۔لوگوں نے غیر منصوص مقدار کو ایسی حیثیت دے دی ہے اور اس پر ایسا اصرار کرتے ہیں جیسا کسی منصوص چیزپر ہونا چاہیے ۔پھر اس سے زیادہ خطرناک غلطی یہ کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی عادت کو بعینہٖ وہ سنت قرار دیتے ہیں جس کے قائم وجاری کرنے کے لیے آپؐ معبوث ہوئے تھے ،درآں حا لے کہ جو اُمور آپؐ نے عادتاً کیے ہیں ،انھیں سنت بنادینا اور تمام دنیا کے انسانوں سے یہ مطالبہ کرناکہ وہ سب ان عادات کو اختیار کریں ، اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا ہرگزمنشا نہ تھا۔یہ تحریف جو دین میں کی جارہی ہے،اگر میں اس کے آگے سپر ڈال دوں اور جس وضع قطع میں لوگ مجھے دیکھنا چاہتے ہیں ،اس میں اپنے آپ کو ڈھال لوں تو میں ایک ایسے جرم کا مرتکب ہوں گا جس کے لیے اﷲ کے ہا ں مجھ سے سخت باز پرس ہوگی اوراس بازپرس میں کوئی میری مدد کے لیے نہ آسکے گا۔ لہٰذامیں اپنے آپ کو لوگوں کے مذاق کے خلاف بناے رکھنا بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں ،بجاے اس کے کہ اپنے آپ کو اس اُخروی خطرے میں ڈالوں ۔ (ترجمان القرآن ، مارچ،جون ۱۹۴۵ء)