کیا ہمارے ملک میں قانون سازی کے لیے اور پھر عدالتوں کے ذریعے ان قوانین کے نفاذ اور تعبیر و تشریح کے لیے ہر فقہ کے اپنے اپنے علما کو اختیارات دیے جائیں گے؟
جواب

ہر فقہ کو نافذ کرنے کے لیے اسی فقہ کے علما صحیح ہوں گے اور سردست اس کے سوا چارہ نہیں ۔ یہ ایک ایسی پیچیدگی ہے جو کئی صدیوں سے چلی آرہی ہے اور اب اس کو رفع کرنے کے لیے بھی ایک طویل مدت درکار ہے۔ البتہ آغاز کار میں لاا ٓف دی لینڈ اور پرسنل لا میں فرق کرنا کافی ہوگا۔ لا آف دی لینڈتو ملک کی اکثریت کے ایما کے مطابق ہوگا لیکن دوسرے مسلک کے لوگوں کو اپنے پرسنل لا کا تحفظ حاصل ہوگا۔ تاہم اس صورت میں یہ مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر جج کا اپنا عقیدہ لا آف دی لینڈ سے مختلف ہو تو وہ فیصلہ کس قانون کے مطابق دے گا۔ اسی طرح پرسنل لا میں فیصلہ دیتے وقت اگر جج خود اس عقیدے اور مسلک سے تعلق نہیں رکھتا تو فیصلے کی صورت کیا ہوگی اور اس پیچیدگی کا کیا علاج ہے؟
یہ مسلکات فی الواقع اپنی جگہ موجود ہیں اور صدیوں کے انحطاط کی بنا پر فرقہ بندیاں نہایت مضبوط ہوگئی ہیں ۔ لیکن ان مشکلات کا سامنا تو بہرحال کرنا پڑے گا۔ اور ان سے بتدریج اور حکمت کے ساتھ ہی عہدہ بر آ ہوا جاسکتا ہے— اگر نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا اہتمام صحیح اسلامی خطوط کے مطابق کر دیا جائے تو دوسری نسل تک پہنچتے پہنچتے گروہی تعصبات کی شدت ختم ہو جائے گی۔
اس وقت دنیا بھر میں عام طور پر چار فقہی مسلک پائے جاتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ چاروں فقہ حق پر ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود جہالت اور تعصب کا یہ عالم ہے کہ بعض اوقات ایک فقہ کو ماننے والے دوسرے فقہ کے لوگوں کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو اپنی مسجدوں تک میں داخل نہیں ہونے دیتے —یہ تشدد، تعصب اورتنگ نظری جو ایک طویل دورِ انحطاط کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے، ایک دن تو ختم نہیں ہوسکتی— جو مشکلات اور پیچیدگیاں صدیوں کے اندر پیدا ہوئی ہیں ، ان کے خاتمے کے لیے پچاس برس سے کم کیا درکار ہوں گے۔
(ہفت روزہ ’’آئین‘‘ لاہور، ۲۲، نومبر۱۹۶۷ئ)