اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ... (النسائ:۱۳۷ ) کی تشریح کے سلسلے میں ایک مرزائی دوست نے یہ اعتراض اُٹھایا ہے کہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اپنی کتاب’’مرتد کی سزا اسلامی قانون میں ‘‘ میں یہ لکھتے ہیں کہ جو ایک دفعہ اسلام لا کر اس سے پھر جائے،اسلام نے اُس کے قتل کا حکم دیا ہے۔لیکن قرآن میں دوسری دفعہ ایمان لانا مندرجہ بالا آیت سے ثابت ہے۔ براہ کرم یہ اشکال رفع فرمائیں ۔
جواب

آیت اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا (النسائ:۱۳۷ ) (رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھرکفر کیا)سے قتل مرتد کے مسئلے پر آپ کے قادیانی دوست نے جو اعتراض کیا ہے،وہ ان کی کم فہمی کا نتیجہ ہے۔انھیں معلوم نہیں کہ قتل مرتد کا حکم تو اُسی جگہ نافذ ہوسکتا ہے جہاں اسلامی حکومت موجود ہو،مگر مسلمان ان مقامات پر بھی پایا جاسکتا ہے جہاں نہ اسلام کی حکومت ہو،نہ ارتداد کی سزا دینی ممکن ہو۔اس لیے آیت مذکورہ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کی رُو سے تمام حالتوں میں کفر بعد الاسلام کے بار بار ارتکاب کا امکان ثابت ہوتا ہے جو قانون قتل مرتد ہونے کی صورت میں ناقابل تصور ہے۔پھر آپ کے ان قادیانی دوست کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اسلامی قانون صدورِ ارتداد کے بعد فوراًہی مرتد کو قتل کردینے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کو اپنی غلطی محسوس کرنے اور توبہ کرنے کا موقع بھی دیتا ہے، اور اگر وہ توبہ کرلے تو اُسے معاف کردیتا ہے۔علاوہ بریں انھوں نے اس بات پر بھی غور نہیں کیاکہ یہ آیت ارتداد کی اخروی سزا بیان کررہی ہے،اور کسی جرم کا اخروی نتیجہ بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اُس کے لیے کوئی دنیوی سزا نہ ہونی چاہیے۔جن گناہوں کی سزا قرآن میں بیان کی گئی ہے ان میں سے متعدد ایسے ہیں جن کی دنیوی سزا کے علاوہ اخروی سزا کا بھی ذکر کیا گیا ہے،مثلاً مسلمان کو عمداًقتل کرنا۔اس لیے کہ بکثرت حالات ایسے ہوسکتے ہیں اور رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں ایک شخص ارتکاب جرم کرتا ہے اور دنیوی سزا سے بچا رہتا ہے۔اسی ارتداد کے معاملے میں دیکھیے کہ اس کی دنیوی سزا صرف اُس وقت دی جاسکتی ہے جب کہ آدمی کا ارتداد علانیہ ہو،حکومت کے نوٹس میں آجائے، او ر عدالت میں اس کا ثبوت بہم پہنچ جائے۔مگر بکثرت ارتداد ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو مخفی طور پر واقع ہوں اور بار بار توبہ کرنے کے بعد آدمی پھر کفر میں مبتلا ہوتا رہے۔ لہٰذا دنیوی سزا تجویز کردینے کے باوجود اخروی سزا کا ذکر ضروری ہے،اور کسی مقام پر محض اخروی سزا مذکور ہونے کے معنی یہ ہرگزنہیں ہیں کہ اس جرم کے لیے دنیوی سزا نہیں ہے۔({ FR 2052 })
اس سلسلے میں میرے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ’’مرتد کی سزا‘‘کا نام سنتے ہی قادیانی حضرات آخر کیوں اس قدر پریشان ہوجاتے ہیں ؟میں نے اپنی کتاب میں کہیں بھولے سے اشارہ تک ان کی طرف نہیں کیا ہے۔پھر بھی وہ اس پر اتنے مشتعل ہیں کہ گویا انھی کے لیے سزاے موت تجویزکی گئی ہے۔کیا وہ خود اپنے متعلق کسی شبہے میں پڑے ہوئے ہیں ؟
(ترجمان القرآن، اپریل مئی ۱۹۵۲ء)