پاکستان میں جماعت اسلامی کے مخالف حضرات پھر اس مہم کو چلانے کی تیاریاں کررہے ہیں جو مارشل لا سے قبل اس کے چلانے میں سرگرمی دکھا رہے تھے۔ یعنی یہ کہ آپ اور جماعت اسلامی کو بدنام کیا جائے۔چنانچہ بعض خاص جرائد کے دیکھنے سے بخوبی واضح ہے۔ ان حضرات کی تقریروں میں بھی اس قسم کی باتیں عام اجتماعات اور اجلاسوں میں سنی جاتی ہیں اور منظر عام پر یہ باتیں آگئی ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ سب سے زیادہ زور اس مسئلے پر دیتے ہیں کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی پاکستان میں حدود و قصاص اور شرعی سزائوں کو ’’ظلم‘‘ کہتے ہیں ، حالاں کہ یہ قرآن کی تجویز کردہ سزائیں ہیں ۔ حال ہی میں ایک ممتاز عالم نے قومی اسمبلی میں آپ کے متعلق اس قسم کا بیان دیا ہے جو بعض جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جب ہم جرائم کے انسداد کی غرض سے شرعی سزائوں کے نفاذ کے لیے کوئی بل پیش کرتے ہیں تو الحاد پرست ممبروں کی طرف سے ہماری مخالفت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ مولانا مودودی نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ پاکستان کی مخلوط سوسائٹی میں حدود اور شرعی سزائوں کا نفاذ ظلم ہے۔ اور مولانا کی تحریریں پڑھ کر ہمیں سنائی جاتی ہیں ۔ یہ حضرات اسمبلیوں سے باہر آکر لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور حدودو قصاص اور شرعی سزائوں کے نفاذ کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ وہی لوگ ڈالتے ہیں جو خود اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ، یعنی آپ اور جماعت اسلامی۔ اس قسم کی بحثیں اب عام وخاص کی مجلسوں میں شروع ہوئی ہیں اور عام طور پر ان بحثوں اور مباحثوں کا اثر عوام اور خواص دونوں پر اچھا نہیں پڑ رہا ہے۔بلکہ وہ نئی نئی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں میں پڑ رہے ہیں ۔جس کے نتائج دُور رس اور اسلام اور عامۃ المسلمین کے حق میں خطرناک ثابت ہوں گے۔ اور جماعت کے کارکنوں کو بھی اس سے ہر جگہ مشکلات پیش آنے کا قوی اندیشہ ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا وضاحتی بیان یا کوئی ایسا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا ہے جو پاکستان میں بحالت موجودہ شرعی سزائوں کے نفاذ کے بارے میں آپ کے موقف کی وضاحت کے لیے کافی ہو۔
جواب

آپ کی نصح وخیر خواہی کی میں دل سے قدر کرتا ہوں ۔ مگر آپ نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ یہ حضرات جو کھیل کھیل رہے ہیں ،اس کی تہ میں کیا ہے۔شرعی سزائوں کے متعلق میری ایک عبارت کو خاص معنی پہنا کر اچھالنے اور جگہ جگہ اس کو پھیلانے کی جو خدمت وہ انجام دے رہے ہیں ، یہ کام کیا فی الواقع کسی ایسے شخص ہی کے کرنے کا تھا جو پاکستان میں حدود شرعیہ کے اجرا کا دل سے خواہاں ہو؟ اخلاص کے ساتھ اس بات کی خواہش رکھنے والا انسان تو یہ کوشش کرے گا کہ اجراے حدود کے معاملے کوتمام اہل دین کے متفق علیہ مسئلے کی حیثیت سے پیش کرے۔ لیکن یہ حضرات ایک ایسے خادم دین کو، جوبرسوں سے اسلامی قانون کے نفاذ کی خاطر لڑ رہا ہے اجراے حدود کے مخالف کی حیثیت دے رہے ہیں اور اس کا نام اچھال اچھال کر دنیا کے سامنے یہ یقین دلانے کے لیے پیش کررہے ہیں کہ وہ پاکستان میں حدودِ شرعیہ کے نفاذ کو ظلم کہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اُس عبارت کا مفہوم ومدعا میں نے بیان کیا تھا یا وہ اس میں یہ مفہوم داخل کررہے ہیں ؟ اس عبارت کی اشاعت عام میں کرر ہا ہوں یا وہ کر رہے ہیں ؟ اس کو اجراے حدود کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنے کا ذریعہ میں بنارہا ہوں ، یا وہ بنا رہے ہیں ؟آج یہ لوگ نہایت مکاری کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’جب ہم شرعی سزائوں کے نفاذ کے لیے کوئی بل پیش کرتے ہیں تو الحاد پرست ممبروں کی طرف سے ہماری مخالفت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ مولانا مودودی نے یہ اور یہ فتویٰ دیا ہے۔‘‘ ان سے ذرا پوچھیے کہ مودودی کا یہ فتویٰ ان الحاد پرست ممبروں کے علم میں آپ لوگوں کے سوا اور کون لایا ہے؟ آپ لوگ ہی تو ہیں جو مودودی سے انتقام لینے کے لیے اس کی ایک عبارت کو زبردستی شرعی سزائوں کے خلا ف فتویٰ بنا کر اچھال رہے ہیں اور ہرروز اچھالے جارہے ہیں تاکہ کوئی الحاد پرست اس کو اپنی اغراض کے لیے ہتھیار بناے۔
اور معاملہ صرف ایک عبارت ہی کا نہیں ہے۔آئے دن میری کتابوں اور عبارتوں میں سے ایک نئی چیز نکالی جارہی ہے اور ایک نیا الزام مجھ پر چسپاں کیا جارہا ہے۔میرے ساتھ ان لوگوں کا معاملہ وہی ہے جو اکابر دیو بند کے ساتھ بریلوی کرتے رہے ہیں ۔ مجھے یقین ہوچکا ہے کہ یہ لوگ خدا اور آخرت سے بالکل بے فکر ہیں ۔بلکہ ان کے انداز گفتگو میں دیانت تو درکنا ر شرافت تک کے آثار نہیں پائے جاتے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ان کی کسی بات کی طرف التفات نہ کروں گا اور صبر کے ساتھ اپنا کام کرتا رہو ں گا۔ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ ( الشعرا:۲۲۷ ) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عن قریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دو چار ہوتے ہیں ۔‘‘ (ترجمان القرآن، اکتوبر۱۹۶۲ء)