تفہیمات کا مضمون( قطع ید اور دوسرے شرعی حدود)({ FR 1936 })ایک عرصے سے عنوان بحث بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جناب مفتی صاحب سے رجوع کیا گیا۔ انھوں نے مضمون متذکرہ کو غور سے مطالعہ کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ مندرجہ ذیل استفسار آں جناب سے کیا جائے: ۱۔اسلام کے قانون واصول قطعی طورپر ناقابل تجزیہ ہیں ؟یا کچھ گنجائش ہے؟ مثلا ً:اگر حکومت اجراے حدود کا قانون پاس کردے اور جج حضرات ان قوانین کے عملی نفاذ کے مجاز ہوجائیں لیکن معاشرے کی حالت یہی رہے جو اب ہے اور اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی قانون نافذہی نہ کیا جائے، تو اس صورت میں شرعی ثبوت کے بعد رجم اور جَلد کی سزا ظلم ہوگی یا نہیں ؟ ۲۔ آپ نے تفہیما ت میں لکھا ہے کہ نکاح، طلاق اور حجاب شرعی کے اسلامی قوانین اور اخلا ق صنفی کے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ان حدود کا گہرا ربط ہے جسے منفک نہیں کیا جاسکتا۔حالاں کہ مندرجہ بالا صورت میں یہ ربط ٹوٹ جائے گا۔جو لوگ اس فعل کے ذمہ دارہوں گے (پارلیمنٹ یا حکومت) یقیناً ان کا یہ فعل نامناسب ہوگا۔ مگر کیا ان قوانین کی رو سے عدالت جو حکم اور حد جاری کرے گی کیا یہ حکم اور حد جاری کرنا ظلم ہوگا؟ ۳۔ کیا حکومت کو اصلاح معاشرہ کے لیے اجراے حدود کو کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھنا چاہیے اور احکام اسلامی کے اجرا میں کسی خاص ترتیب کو ملحوظ رکھنا چاہیے؟
جواب

میرے اس مضمون کے متعلق سوال کرنے سے پہلے اچھا ہوتا کہ اسی مضمون کے آخر میں اس کی جو تاریخ تحریر درج کی گئی ہے،اسے بھی دیکھ لیا جاتا اور یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی کہ مضمون کا اصل موضوع زیر بحث کیا تھا۔ تفہیمات حصہ دوم میں جہاں یہ مضمون درج ہے، وہیں آخر میں یہ نوٹ بھی موجود ہے کہ یہ مارچ۱۹۳۹ء میں لکھا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کوئی حکومت ایسی موجود نہیں تھی جس میں یہ سوال درپیش ہوتا کہ اب یہاں حدود شرعیہ جاری کی جائیں یا نہیں ۔ پھر مضمون کا موضوع بھی یہ نہیں تھا کہ یہاں اجراے حدود کی کیا صورت ہو۔ اس کا موضوع تو ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینا ہے جو زنا اور قذف اور سرقے کی شرعی سزائوں کو انتہائی سخت قرار دیتے تھے اور وحشیانہ سزا کہنے سے بھی نہ چوکتے تھے۔ اس کے جواب میں ان کو سمجھایا گیا تھا کہ اسلام محض ان جرائم پر سزا ہی نہیں دیتا بلکہ ان کے ساتھ معاشرے میں ان اسباب کی روک تھام بھی کرتا ہے جن کی وجہ سے لوگ ان جرائم میں مبتلا ہوتے ہیں ۔تم اسلام کی اس اصلاحی اسکیم کو نظر انداز کرکے معاشرہ تو وہ فرض کرتے ہو جس میں فسق وفجور کو بڑھانے کے لیے تمام اسباب فراہم کردیے گئے ہیں اور پھر یہ تصورکرکے چیخ اٹھتے ہو کہ اس صورت حال کو باقی رکھتے ہوئے اسلام کا محض قانو ن تعزیرات نافذ کردیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمھیں یہ سزائیں حد سے زیادہ سخت نظر آتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس بحث میں سے جن لوگوں نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ میں اجراے حدود شرعیہ کا مخالف ہوں وہ کس حد تک نیک نیت ہیں اور ان کی نکتہ آفرینیاں کہاں تک قابل التفات ہیں ؟
اب جو سوالات مفتی صاحب نے اٹھائے ہیں ، ان کا مختصر جواب حاضر ہے:
اس وقت اگر کوئی مسلمان حکومت اسلام کے تمام احکام وقوانین اور اس کی ساری اصلاحی ہدایات کومعطل رکھ کر اس کے قوانین میں سے صرف حدود شرعیہ کو الگ نکال لے اور عدالتوں میں ان کو نافذ کرنے کا حکم دے دے تو جو قاضی یا جج کسی زانی یا سارق یا شارب خمر پرحد جاری کرنے کا حکم دے گا وہ تو ظالم نہیں ہوگا،البتہ وہ حکومت ضرور ظالم ہوگی جس نے شریعت الٰہیہ کے ایک حصے کو معطل او ردوسرے حصے کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایسی حکومت کو اس آیت قرآنی کا مصداق سمجھتا ہوں جس میں فرمایا گیا ہے:
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ۝۰ۚ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝۰ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ (البقرہ:۸۵)
’’توکیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرےحصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں ؟‘‘
میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ جو حکومت خود شراب بنانے اور بیچنے کے لائسنس دیتی ہو اور جس کی تقریبات میں خود حکومت کے کارفرما اور ان کے معزز مہمان شراب سے شغل کرتے ہوں ،ان کے قانون میں اگر شارب خمر کے لیے ۸۰ کوڑے لگانے کی سزا مقرر کردی جائے تو اسے ہم اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت کہنے میں حق بجانب ہوں گے۔ میں یہ نہیں مانتا کہ ایک طرف عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو رواج دینا، لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک ساتھ کالجوں میں پڑھانا، عورتوں سے سرکاری دفاتر میں مردوں کے ساتھ کام لینا، ننگی تصویروں اور عریاں فلموں اور فحش لٹریچر کی بے روک ٹوک اشاعت جاری رکھنا، ۱۶ سال سے کم عمر کی لڑکی اور۱۸ سال سے کم عمر کے لڑکے کا نکاح قانوناًممنوع ٹھیرانا،اور دوسری طرف زنا پر رجم اور کوڑوں کی سزا دینا فی الواقع اسلامی قانون کا اجرا ہے۔مجھے یہ ہرگز تسلیم نہیں ہے کہ سود اور قمار کو حلال کرنے والی اور ان محرمات کو خود رواج دینے والی حکومت چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون نافذ کرکے اسلامی قانون نافذ کرنے والی حکومت قرار دی جاسکتی ہے۔اگر کوئی عالم دین اس متضاد طرز عمل کے جواز کے قائل ہوں اور ان کے نزدیک شریعت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور اس کے اجزا میں سے بعض کو ترک اور بعض کو اخذ کرلینا ظلم نہیں بلکہ ایک نیکی ہو تو اپنے دلائل ارشادفرمائیں ۔
دراصل یہ مسئلہ محض اس سادہ سے قانونی سوال پر بحث کرکے حل نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں شرعی حدود کا نفاذ جائز ہے یا نہیں ۔اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ہم کو محض احکام ہی نہیں دیے ہیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی حکمت بھی سکھائی ہے، جس سے کام لے کر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ایک مدت دراز تک کفر وفسق کی فرماں روائی کے تحت رہنے کے بعد ہمارے ملک میں جو حالات پیدا ہوچکے ہیں ،ان میں اقامت دین کا کام اب کس طرح ہونا چاہیے۔ جہاں تک میں نے شریعت کو سمجھا ہے، اس کے نظام میں اصلاح،سد باب ذرائع اور تعزیر کے درمیان ایک مکمل توازن قائم کیا گیا ہے۔ ایک طرف وہ ہر پہلو سے تزکیۂ اخلاق اور تطہیر نفوس کی تدابیر ہمیں بتاتی ہے، دوسری طرف وہ ایسی ہدایات ہمیں دیتی ہے جن پر عمل درآمد کرکے ہم بگاڑ کے اسباب کی روک تھام کرسکتے ہیں ، اور تیسری طرف وہ تعزیرات کا ایک قانون ہمیں دیتی ہے تاکہ تمام اصلاحی وانسدادی تدابیر کے باوجود اگر کہیں بگاڑرونما ہوجائے تو سختی کے ساتھ اس کا تدارک کردیا جائے۔ شریعت کا منشا اس پوری اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کرکے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت دین کے بالکل خلاف ہے۔ اس کے جواز میں یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ جس جز کو ہم نافذ کررہے ہیں اس کے نفاذ کا حکم قرآن میں موجود ہے۔ اس استدلال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک حکیم کا مرتب کردہ نسخہ کسی اناڑی کے ہاتھ آجائے اور وہ اس کے بہت سے اجزا میں سے صرف دوچار اجزا نکال کر کسی مریض کو استعمال کرائے اور اعتراض کرنے والے کا منہ بند کرنے کے لیے یہ دلیل پیش کرے کہ جو اجزا میں استعمال کرا رہا ہوں ، وہ سب حکیم کے نسخے میں درج ہیں ۔ اس کی اس دلیل کا جواب آخر آپ یہی تو دیں گے کہ بند ۂ خدا، حکیم کے نسخے میں جو مصلحات اور بدرقے درج تھے، ان سب کو چھوڑ کر تو صرف سمیات مریض کو استعمال کرارہا ہے اور نام حکیم کا لیتا ہے کہ میں اس کے نسخے سے علاج کررہا ہوں ۔حکیم نے تجھ سے یہ کب کہا تھا کہ تو میرے نسخے میں سے جس جز کو چاہے چھانٹ کر نکال لے اور جس مریض کو چاہے کھلا دے۔
اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت آیا اپنے نفاذ کے لیے مومن ومتقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق وفاجر لوگ اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں ؟ اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدم جواز کی قانونی بحث مسئلے کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہوتو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمت دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں ۔ کیا حکمت دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکام شرعیہ کا اجرا ایسے حکام کے ذریعے سے کرایا جائے جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے اور جن میں ایک بڑی تعدادعقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ میرے نزدیک تو اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے ہاتھوں احکام شریعت جاری کرائے جائیں ۔اگر چند بندگان خدا پر بھی جھوٹے مقدمات بناکر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدود شرعیہ کا نام لینامشکل ہوجائے گا اور دنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں ،اس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے، تو ہمیں پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں ۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہو گا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہر جہت سے ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور اسی سلسلے میں حدود شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔ یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے۔یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلس قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اورکل حدود شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسود ۂ قانون پیش کردیا گیا۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے۔ایک حالت تو وہ ہوتی ہے جس میں پہلے سے ملک کے اندر اسلامی قانون نافذ چلا آرہا ہو اور بعد میں بتدریج انحطاط رونما ہوتے ہوتے یہ نوبت آگئی ہو کہ شریعت کے بعض حصے متروک ہوگئے ہوں اور جن حصوں پر عمل ہو بھی رہا ہو،ان کونافذ کرنے والے بدکردار لوگ ہوں ۔ اس حالت میں حکمت دین کا تقاضا یہ نہ ہوگا کہ شریعت کے جو حصے نافذ ہیں ،ان کوبھی چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ یہ ہوگا کہ عام اصلاح کی کوششیں کرکے ایک طرف صالح عناصر کو برسر اقتدار لایا جائے اور دوسری طرف شریعت کے باقی ماندہ حصوں کو نافذ کیا جائے۔ دوسری حالت وہ ہے جس میں کفر وفسق کا سیلاب سب کچھ بہا لے گیا ہو اور اب ہم کو نئے سرے سے تعمیر کا آغاز کرنا ہو۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ بنیادوں سے تعمیر شروع کرنی ہوگی نہ کہ اوپر کی منزلوں سے۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۶۲ء)