مجھے آپ کی تحریک سے ذاتی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔میری ایک بہن آپ کی جماعت میں شامل ہوگئی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی بدل گئی ہے۔ہر وقت نماز،تسبیح، وعظ اور نصیحت سے کام ہے۔ گھر کے افراد کو زبردستی آپ کا ترجمۂ قرآن سناتی ہے۔اگرچہ تعلیم یافتہ ہے لیکن خیالات کے اعتبار سے وہ موجودہ زمانے کی لڑکی نہیں رہی۔ لباس سادہ اور سفید پہنتی ہے۔جس دن دل چاہے روزہ رکھ لیتی ہے۔میں اس کے اس طرز سے نہایت پریشان ہوں ۔ رشتہ داروں میں جو سنتا ہے وہ اس لیے رشتے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ رات دن وعظ کون سنے۔ پرسوں میری خالہ آئی تھیں ،ان کوبھی یہ نصیحت کرنے لگیں ۔چند کتابیں اور ایک کیلنڈر آپ کے ہاں کا انھیں دے ہی دیا۔کل اتوار تھا،ہم لوگ سیرکے لیے گئے،اس سے بہت کہا، مگر یہ نہیں گئی۔ بالکل ولیوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے اس ماحول میں آخر کس طرح گنجائش پیداکی جائے۔نہ تو اس کی شادی اس طرح ہوسکتی ہے اور نہ اس کے خیالات بدلنا میرے یا کسی کے بس میں ہے۔ اگر اس سے کچھ کہا جائے تو رنجیدہ ہوجاتی ہے۔بتایئے میں کیا کروں ؟
جواب
اس معاملے میں مَیں خود بھی بے بس ہوں ۔آپ اپنے طور پر ہی کوشش کریں کہ آپ کی ہمشیرہ اسلام سے توبہ کرلیں ۔
(ترجمان القرآن، مئی،جون۱۹۵۳ء)