جناب ازراہِ کرم درج ذیل احادیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔ حدیث نمبر۱:حضرت سبرہؓ کی روایت نکاح متعہ کے متعلق کہ ہم دو ساتھی بنی عامر کی کسی عورت کے پاس گئے اور اُسے اپنی خدمات پیش کیں ۔ حدیث نمبر۲: حضرت جابررضی اللّٰہ عنہ کی روایت کہ ہم نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے عہد میں مٹھی بھر آٹا دے کر عورتوں کو استعمال کرلیتے تھے اور اس حرکت سے ہمیں حضرت عمرؓ نے روکا۔
جواب

حضرت سبرۃ الجہنی اور حضرت جابرؓ والی حدیثیں ،[صحیح] مسلم،] کتاب النکاح[ باب نکاح المتعہ میں موجود ہیں ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ معترضین نے صرف اعتراض کی خاطر حدیثیں تلاش کرنی شروع کیں اور اس سلسلے میں ان دونوں حدیثوں کو بھی اپنی فہرست میں ٹانک لیا۔ورنہ اگر وہ جاننے کی کوشش کرتے کہ متعہ کی حقیقت کیا ہے اوراس کے بارے میں فقہا کے درمیان کیا بحثیں پیدا ہوئی تھیں ،اور ان بحثوں کا تصفیہ کرنے کے لیے محدثین نے کس مقصد کے لیے وہ تمام روایات اپنی کتابوں میں جمع کیں جو متعہ کے جواز اور حرمت کے متعلق ان کو مختلف سندوں سے پہنچی تھیں ، تو شاید وہ ان احادیث پر نظر عنایت نہ فرماتے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلام سے قبل،زمانۂ جاہلیت میں نکاح کے جو طریقے رائج تھے،ان میں سے ایک ’’نکاح متعہ‘‘ بھی تھا۔یعنی یہ کہ کسی عورت کو کچھ معاوضہ دے کر ایک خاص مدت کے لیے اُس سے نکاح کرلیا جائے۔نبی ﷺ کا قاعدہ یہ تھا کہ جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کسی چیز کی نہی کا حکم نہ مل جاتا تھا،آپﷺ پہلے کے رائج شدہ طریقوں کو منسوخ نہ فرماتے تھے۔ بلکہ یا تو ان کے رواج پر سکوت فرماتے یا بوقت ضرورت ان کی اجازت بھی دے دیتے۔چنانچہ یہی صورت متعہ کے بارے میں بھی پیش آئی۔ابتداء ً آپﷺ نے اس کے رواج پر سکوت فرمایا، اور بعد میں کسی جنگ یا سفر کے موقع پر اگر لوگوں نے اپنی شہوانی ضرورت کی شدت ظاہر کی تو آپﷺ نے اس کی اجازت بھی دے دی،کیوں کہ حکم نہی اُس وقت تک نہ آیا تھا۔ پھر جب حکم نہی آگیا تو آپﷺ نے اُس کی قطعی ممانعت فرما دی۔ لیکن یہ حکم تمام لوگوں تک نہ پہنچ سکا اور اس کے بعد بھی کچھ لوگ ناواقفیت کی بنا پر متعہ کرتے رہے۔آخر کار حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں اس حکم کی عام اشاعت کی اور پوری قوت کے ساتھ اس رواج کو بند کیا۔
اس مسئلے میں فقہا کے سامنے متعدد سوالات تحقیق طلب تھے۔مثلاًیہ کہ آیا حضور ﷺنے کبھی اس کی صریح اجازت بھی دی تھی؟ اور اگر دی تھی تو کس موقع پر؟ اور یہ کہ آپﷺ نے اسے منع فرمایا ہے یا نہیں ؟اور منع فرمایا ہے تو کب اورکن الفاظ میں ؟اور یہ کہ آیا اس کی تحریم حضور ﷺ کا اپنا فعل ہے یا حضرت عمرؓ نے اپنی ذمہ داری پر اس رواج کو بند کیا؟یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات تھے جن کی تحقیق کے لیے فقہا ومحدثین کو وہ تمام روایات جمع کرنے کی ضرورت پیش آئی جو اس مسئلے سے متعلق مختلف لوگوں کے پاس موجود تھیں ۔اسی سلسلے میں امام مسلمؒ نے وہ دو نوں روایات بھی نقل کیں جن کومعترضین نے اعتراض کے لیے چھانٹا ہے۔
ان میں سے ایک حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ کی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں متعہ کرتے تھے، پھر حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں اس کی ممانعت کردی۔دوسری حدیث سبرۃ الجہنیؓ کی ہے جو بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی۔ چنانچہ میں نے خود ایک چادر کے عوض ایک عورت سے متعہ کیا، مگر بعد میں اسی غزوے کے زمانے میں آپﷺ نے اعلان فرمادیا کہ اﷲ تعالیٰ نے متعہ کو قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے۔ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث مسلم اور دوسرے محدثین نے جمع کی ہیں جو اس مسئلے کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر محدثین یہ مواد جمع نہ کرتے تو اسلامی قانون کی تدوین کرنے والے آخر کس بنیاد پر متعہ کے جواز وعدم جواز کا فیصلہ کرتے؟
(ترجمان القرآن ، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)