جواب
پاکستان کی مردم شماری میں عورتوں کی تعدادکا مردوں سے کم پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فی الواقع ہمارے ہاں عورتوں کی تعداد مردو ں سے کم ہے۔ بلکہ اس میں ہمارے ہاں کے رسم ورواج کا بڑ ادخل ہے جس کی بِنا پر لوگ اپنے گھر کی عورتوں کا اندراج کرانے سے پرہیز کرتے ہیں ۔تاہم اگر کروڑوں کی آبادی میں چند لاکھ کا فرق ہو بھی تو اس سے کوئی ایسا معاشرتی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جس کے لیے تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت پیش آئے۔یہ مسئلہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے نکاح ثانی سے حل ہوجاتا ہے اور بالفرض اگر کوئی بہت ہی غیر معمولی کمی واقع ہوجائے تو عارضی طور پر کچھ مدت کے لیے پابندی عائد کرنا بھی جائز ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس پابندی کا اصل محرک یہی مسئلہ ہو۔ لیکن اس بات کو چھپانے کی آخر کیا ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت دراصل اس بِنا پر محسوس نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کا اصل محرک یہ مغربی تخیل ہے کہ تعدد ازواج بجاے خود ایک بُرائی ہے اور ازروے قانون یک زوجی ہی کو رواج دینا مطلوب ہے۔ یہ محرک ہمارے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے اور اس کی جڑ کاٹنا ہم ضروری سمجھتے ہیں ۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ قرآن میں کوئی آیت تعدد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نہیں آئی ہے۔تعدد ازواج پہلے سے جائز چلا آرہا تھا اور سورۃالنساء کی آیت نمبر ۳کے نزول سے پہلے خود نبیﷺ کے گھر میں تین ازواج مطہرات موجود تھیں ۔ نیز صحابہ کرامؓ میں بھی بہت سے اصحاب تھے جن کے ہاں ایک سے زیادہ بیویاں تھیں ۔ سورۂ النساء کی مذکورہ آیت اس جائز فعل کی اجازت دینے کے لیے نہیں آئی تھی بلکہ اس غرض کے لیے آئی تھی کہ جنگ اُحد میں بہت سے صحابہ کے شہید ہوجانے اور بہت سے بچوں کے یتیم ہوجانے سے فوری طور پر جو معاشرتی مسئلہ پیدا ہوا تھا،اسے حل کرنے کی صورت مسلمانوں کو یہ بتائی گئی کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو دو دو،تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کرکے ان یتیموں کو اپنی سرپرستی میں لے لو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تعدد ازواج صرف ایسے ہی مسائل پیش آنے کی صورت میں جائز ہے۔آخر تیرہ چودہ سو برس سے ہمارے معاشرے میں یہ طریقہ رائج ہے۔اس سے پہلے کب یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ تعدد ازواج کی اجازت مخصوص حالات کے ساتھ مشروط ہے؟یہ طرزِ فکر ہمارے ہاں مغرب کے غلبے سے پیدا ہوا ہے۔ (ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۳ء)