کیا مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہوگی؟
جواب

مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کے معاملے میں ازروے قانون پابندی عائد کرنے کا یا اس میں رکا وٹ ڈالنے کا تخیل بھی ایک بیرونی مال ہے جسے قرآن کے جعلی پرمٹ پر درآمد کیا گیا ہے۔ یہ اس سوسائٹی میں سے آیاہے جس میں ایک ہی عورت اگر منکوحہ بیوی کی موجودگی میں داشتہ کے طور پر رکھی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ قابل برداشت ہے بلکہ اس کے حرامی بچوں کے حقوق محفوظ کرنے کی بھی فکر کی جاتی ہے (فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے) لیکن اگر اسی عورت سے نکاح کرلیا جائے تو یہ جرم ہے۔ گویا ساری پابندیاں حلال کے لیے ہیں ،حرام کے لیے نہیں ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ابجد سے بھی واقف ہو تو کیا وہ یہ اقدار(values) اختیار کرسکتا ہے؟ کیا اس کے نزدیک زنا قانوناً جائز اور نکاح قانوناً حرام ہونے کا عجیب وغریب فلسفہ برحق ہوسکتا ہے؟ اس طرح کے قوانین بنانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ مسلمانوں میں زنا کا رواج بڑھے گا۔ گرل فرینڈز اور داشتائیں (mistresses) فروغ پائیں گی او ردوسری بیو ی ناپید ہوجائے گی۔ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہوگی جو اپنے خدوخال میں اسلام کی اصل سوسائٹی سے بہت دُور اور مغربی سوسائٹی سے بہت قریب ہو گی۔ اس صورت حال کے تصور سے جس کا جی چاہے، مطمئن ہو۔ مسلمان کبھی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۲ء)
سوال ۴۵۴: میرے ایک عزیز جو اب لامذہب ہوچکے ہیں ،چار تک شادیوں کی اجازت کو لغو قرار دیتے ہیں ۔ وہ اپنے اس نظریے کی تبلیغ بھی کرتے ہیں ۔میں ان کے مقابلے میں اسلامی احکام وتعلیمات کے دفاع کی کوشش کرتا ہوں ۔میری راہ نمائی اور مدد کیجیے۔
جواب: چار شادیوں ] ... [ کے بارے میں مختصر طریقے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں ان جملہ مسائل پر متعدد مرتبہ تفصیلاً اظہار خیال کرچکا ہوں ۔تعدد ازواج کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے آپ میری تفسیر تفہیم القرآن حصہ اوّل کے متعلقہ مقامات انڈکس کی مدد سے(نکاح، قانون اسلامی اور ازواجی زندگی کے تحت) مطالعہ کریں ۔ علاوہ ازیں حکومت کے مقررہ کردہ میرج کمیشن کے سوال نامے کا جو جواب میں نے دیا تھا،اس میں بھی اس مسئلے پر بحث موجود ہے۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۲ء)