کیا نکاح کا رجسٹری کرانا لازمی ہونا چاہیے؟ اگر ایسا ہو تو اس کے لیے کیا طریق کار ہونا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کے لیے کیا اور کسے سزا ہونی چاہیے؟
جواب

نکاحوں کو ایک پبلک رجسٹر میں درج کرانے کا انتظام مفید تو ضرور ہے مگر اسے لازم نہ ہونا چاہیے۔ شریعت نے نکاح کے لیے جو قواعد مقرر کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح کم از کم دو گواہوں کے سامنے ہو اور اس کو علی الاعلان کیا جائے تاکہ زوجین کے رشتہ داروں اور قریب کے حلقہ تعارف میں ان کا رشتہ معلوم و معروف ہو جائے۔ نزاعات کی صورت میں اس طریقے سے نکاح کی شہادتیں بہم پہنچنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔ تاہم قیام شہادت میں مزید سہولتیں دو طریقوں سے پیدا ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ایک معیاری نکاح نامہ مرتّب کرکے عام طور پر شائع کر دیا جائے تاکہ لوگ نکاح سے متعلق تمام ضروری امور اس میں درج کرکے شہادتیں ثبت کرا لیا کریں ۔ دوسرے یہ کہ ہر محلے اور بستی میں نکاحوں کا ایک رجسٹر رکھ دیا جائے تاکہ جو بھی اس میں نکاح کا اندراج کرانا چاہے کرا دے۔ لوگ بالعموم خود ہی اپنے مفاد کی حفاظت کے لیے ان دونوں سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن اسے لازم کرنے میں دو قباحتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی سزا دینی ہو گی اور اس طرح خواہ مخواہ ایک نئے جرم کا اضافہ ہو گا۔ دوسرے یہ کہ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں کو تسلیم کرنے سے عدالتوں کو انکار کرنا ہو گا، حالانکہ جو نکاح گواہوں کے سامنے کیا جائے گا وہ شرعاً منعقد ہو جاتا ہے اور عدالت اس کے وجود سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ پھر یہ بھی غور طلب ہے کہ آیا آپ غیر رجسٹری شدہ نکاحوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو ناجائز اولاد قرار دیں گے اور انھیں پدری جائداد کی وراثت سے بھی محروم کریں گے؟ اگر یہاں تک آپ نہیں جانا چاہتے تو رجسٹری کو قانوناً لازم کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔