کیا ازدواجی و عائلی عدالت کو مطلّقہ کے مطالبے پر یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ مطلّقہ کو تاحینِ حیات یا تا عقدِثانی نفقہ دلوائے؟
جواب

یہ بات شریعت کے خلاف بھی ہو گی اور انصاف کے خلاف بھی۔ قرآن اور حدیث میں وہ صورتیں معین کر دی گئی ہیں جن میں ایک مطلّقہ عورت طلاق دینے والے شوہر سے نفقہ پانے کی حق دار ہوتی ہے۔ اور یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ ان مختلف صورتوں میں وہ کتنی مدت کے لیے حق دار رہتی ہے۔ تاحینِ حیات یا تا عقدِ ثانی نفقہ پانے کا استحقاق اس شرعی ضابطے کے خلاف ہو گا اور عقل بھی یہ نہیں مانتی کہ ایک شخص جو ایک عورت کو طلاق دے چکا ہے اور جو اس سے اب کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کا حق دار نہیں ہے۔ مدت العمر یا تا عقدِ ثانی اس کے مصارف کا بار اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ یہ چیز خود عورتوں کی اخلاقی پوزیشن کو بھی گرا دینے والی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی خوددار اور شریف عورت یہ بات کبھی گوارا کر سکتی ہے کہ وہ ایک غیر شخص سے جس کی بیوی وہ نہیں رہی ہے اپنے مصارف کی کفالت کراے۔ ایسا ضابطہ اپنے قوانین میں درج کرکے ہم اپنے معاشرے کے طبقہ اناث کی عزت پر بری طرح حرف لائیں گے اور اس کا فائدہ صرف وہ چند عورتیں ہی اٹھائیں گی جو اپنے اخلاقی وقار کی بہ نسبت مال کو زیادہ اہمیّت دینے والی ہوں ۔