کیا آپ کے نزدیک یہ لازمی ہونا چاہیے کہ عقدِ ثانی کا ارادہ رکھنے والا شخص عدالت سے اجازت حاصل کرے؟
جواب

شریعت نے عقدِ اوّل اور عقد ِ ثانی و ثالث و رابع میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ان سب کی کھلی اجازت ہے۔ اگر عقد اوّل کسی عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط نہیں ہو سکتا تو ثانی کیا، ثالث و رابع بھی نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کی تجویزیں صرف اسی صورت میں قابلِ غو رہو سکتی ہیں جب کہ پہلے یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایک سے زائد نکاح کرنا ایک برائی ہے جس کو اگر روکا نہ جا سکے تو کم از کم اس پر پابندیاں ہی عائد ہونی چاہییں ۔ یہ نقطۂ نظر رومن لا کے فلسفہ قانون کا ہے نہ کہ اسلام کے فلسفہ قانون کا۔ اس لیے اسلامی قانون کی بحث میں ایسی تجویزیں لانا جن کا بنیادی تصوّر ہی اسلام کے تصوّر سے مختلف ہو اصولاً بالکل غلط ہے۔