کیا آپ کے نزدیک یہ قانون ہونا چاہیے کہ عدالت یہ اجازت اس وقت تک نہیں دے سکتی جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ درخواست دہندہ دونوں بیویوں اور ان کی اولاد کی اس معیارِ زندگی کے مطابق کفالت کر سکتا ہے جس کے وہ عادی ہیں ؟
جواب

اوپر کے جواب کے بعد یہ سوال آپ سے آپ خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تجویز کی بعض کمزوریوں کی طرف اشارہ کر دیا جائے۔ اس میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ عدالت عقدِ ثانی کی اجازت صرف اس صورت میں دے جب کہ ایک شخص دو بیویوں اور ان کی اولاد کی کفالت کر سکتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص ایک بیوی اور اس کی اولاد کی بھی کفالت نہ کر سکتا ہو اسے نکاح کی کھلی چھٹی کیوں ملی رہے؟ کیوں نہ ہر شخص کے عقد اوّل کا معاملہ بھی عدالت کی اجازت سے مشروط ہو اور اس کے لیے بھی یہ قید نہ لگا دی جائے کہ جب تک نکاح کا ہر خواہش مند عدالت کو اپنی مالی پوزیشن کے متعلق اطمینان نہ دلا دے اس وقت تک کسی کو نکاح کی اجازت نہ دی جائے؟ پھر یہ عجیب بات ہے کہ محبت اور سنجوگ اور خاندانی زندگی کے لطف و اطمینان کا ہر سوال نظر انداز کرکے صرف اس ایک سوال کو نکاح ثانی کے معاملے میں اہمیّت دی گئی ہے کہ یہ کام کرنے والا دو بیویوں اور ان کی اولاد کے مالی بار کا متحمل ہو سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عقدِ ثانی غریب اور متوسط طبقے کے لیے تو ممنوع ہو‘ مگر اونچے طبقے کے لیے یہ حق پوری طرح محفوظ رہے۔
اس سے بھی زیادہ دل چسپ کمزوری اس میں یہ ہے کہ عدالت صرف یہ دیکھ کر ایک شخص کو نکاح ثانی کی اجازت دے دے گی کہ وہ دو بیویوں اور ان کی اولاد کا متکفل ہو سکتا ہے حالانکہ محض متکفل ہو سکنا عملاً متکفل ہونے کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہمارے سامنے بکثرت مثالیں ایسے لوگوں کی موجودہیں جو بڑی بڑی آمدنیاں رکھتے ہیں اور ایک بیوی کو نذرِ تغافل کیے رکھتے ہیں ۔ عدالتوں کی اجازت کی قید ان خرابیوں کا آخر کیا سدّباب کرتی ہے؟ ایسی خام تجویزوں کے بجاے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم شریعت کے اس قاعدے ہی پر اکتفا کریں کہ ایک شخص ایک سے زائد نکاح کرنے کے معاملے میں اپنی مرضی کا مختار ہو اور جس بیوی کو بھی اس سے کسی نوع کی بے انصافی کا شکوہ ہو اس کی دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھلا رہے۔