جواب
طویل قید کی صورت میں فسخ نکاح کا قانون کچھ صحیح نہیں ہے۔ نیز عورت کو یہ حق دینے سے اصل مسئلہ حل بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا مزاج یہ نہیں ہے کہ شوہر اگر لمبی مدت کے لیے قید ہو گیا ہو تو بیوی فسخ نکاح کا مطالبہ لے کر عدالت میں پہنچ جائے۔ خصوصاً صاحب ِاولاد عورت تو مشکل ہی سے اس کا خیال کر سکتی ہے۔ اس لیے کثیر التعداد عورتیں اس قانون کے ہوتے ہوئے بھی اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھائیں گی اور ان کے مصائب جوں کے توں رہیں گے۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ جیل کے قواعد میں حسب ذیل تین اصلاحات کی جائیں ۔
الف- چار سال یا اس سے کم مدت کے قیدیوں کو سال میں کم از کم دو مرتبہ کم از کم پندرہ دن کے لیے پیرول پر گھر جانے کی اجازت دی جایا کرے۔
ب- چار سال سے زیادہ مدت کے قیدیوں کو جیل میں رکھنے کے بجاے ان بستیوں میں رکھا جائے جو طویل المیعاد قیدیوں کے لیے مخصوص ہوں ، اور وہاں انھیں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنے کا موقع دیا جائے۔
ج- قیدیوں سے جیل میں جو کام لیا جائے اس کی اجرت بازار کی شرحوں کے مطابق ان کے حساب میں جمع کی جائے اور وہ یا اس کا ایک مناسب حصّہ ان کی بیویوں اور بچوں کے نفقے میں ادا کیا جاتا رہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۵ء)