یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کبھی اس حدیث کو امر قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے خبر ثابت کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک صاحب نے چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر (جلد اوّل صفحہ ۱۸۰) سے آپ کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں آپ نے اس حدیث کو محض ایک پیشین گوئی قرار دیا تھا اور اس کے حکم ہونے سے انکار کیا تھا۔ حالانکہ اب آپ اسے ایک حکم قرار دیتے ہیں ۔ کیا اس سے یہ شبہہ کرنے کی گنجائش نہیں نکلتی کہ یا تو آپ اس مسئلے کو سمجھے نہیں ہیں یا پھر آپ کبھی اپنے مطلب کے مطابق اس کا ایک مفہوم بناتے ہیں اور کبھی دوسرا؟
جواب

چراغِ راہ کے اسلامی قانون نمبر سے میری جو عبارت نقل کی گئی ہے وہ دراصل آج سے ۲۰ سال پہلے اگست ۱۹۳۹ئ کے ترجمان القرآن میں ایک مستشرق کے مضمون ’’اسلامی قانون اور نظامِ معاشرت‘‘ پر مختصر نوٹ کی حیثیت سے لکھی گئی تھی۔ اس وقت تک مجھے اس مسئلے کی تحقیق کا موقع نہ ملا تھا اور میں نے مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی تحقیق پر اعتماد کرکے ایک راے ظاہر کر دی تھی۔({ FR 2242 }) لیکن بعد میں جب میں نے خود تحقیق کی تو مجھے وہ راے غلط محسوس ہوئی اور میں نے اپریل ۱۹۴۶ئ کے ترجمان القرآن میں اس کے خلاف اپنی اس راے کا اظہار کیا جسے آپ ’’خلافت کے لیے قریشیت کی شرط‘‘ کے زیر عنوان رسائل و مسائل جلد اوّل میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔ علمی مسائل میں راے بدلنا کوئی نیا اور نرالا واقعہ نہیں ہے۔ اس کو اگر کسی برے معنی پر کوئی شخص محمول کرنا چاہے تو اسے اپنے فعل کا اختیار ہے۔ میری تبدیلی راے کے وجوہ آگے آپ خود دیکھ لیں گے۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۹ئ)