مخلو ط انتخاب سے پاکستان کی وہ حیثیت تو بلاشبہہ کمزور ہوجاتی ہے جسے اسلام کے نام سے نمایاں کیا گیا ہے،لیکن جداگانہ انتخاب سے سواے مسلم قوم پرستی کے اور کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ اسلام کے حق میں تو ایسا جداگانہ انتخاب قطعی بے معنی بلکہ نقصان رساں ہے جس کے بعد بھی اسمبلی میں مسلم وغیر مسلم دونوں کو مساوی حق راے دہی حاصل ہو، اسمبلی کا صدر ونائب صدر مسلم وغیر مسلم دونوں بن سکتے ہوں ، نمائندہ وزارت میں دونوں لیے جاسکتے ہوں ، اور احکام اسلامی کی توضیح وتنقید، اتفاق واختلاف آرا اور ووٹنگ میں کلمہ گو اور غیر کلمہ گو دونوں یکساں طور پر حصہ لے سکتے ہوں ۔ ایسی صورت میں اسلام کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچنے کے بجاے اسلام کی عمومیت و عالم گیریت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔اسلام کا دوسروں کے مقابلے میں فریق جنگ بن جانے کا خطرہ ہے۔ غیر مسلم قومیں خواہ مخواہ اسے اپنا سیاسی و معاشی حریف سمجھنے لگیں گی، غیر مسلموں کے دل اسلام کی طرف سے اور مقفل ہوجائیں گے، ملک میں دوسری قوموں سے کش مکش زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے گی‘ اور ہوسکتا ہے کہ آیند ہ چل کر پاکستان میں اسلام بھی بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں کا قومی مذہب بن کر رہ جائے۔ اگر مسلمانوں کی پوزیشن اس ملک میں وہی رہے جو آج ہے، تو کوئی حقیقی اسلامی فائدہ حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمائیں ۔
جواب

طریق انتخاب کے بارے میں بھی آپ نے ہمارے نقطۂ نظر کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے۔ میں نے اپنے پمفلٹ’’مخلو ط انتخاب کیوں اور کیوں نہیں ‘‘ کے آخری حصے میں جو کچھ عرض کیا ہے، اسے پھر بغور ملاحظہ فرمائیں اور خود بھی غور کریں کہ اگر مخلو ط انتخاب اپنے وطنی قومیت کے نظریے اور لادینی پس منظر کے ساتھ رائج ہو تو وہ ہمارے آخری مقصود کی راہ میں زیاد ہ رکاوٹ ثابت ہو گایا جداگانہ انتخاب ان قباحتوں کے ساتھ جن کی آپ نشان دہی کر رہے ہیں ، زیادہ رکاوٹ ثابت ہو گا؟ نیز یہ کہ جداگانہ انتخاب سے پیدا ہونے والی قباحتوں کو رفع کرنا آسان ہے یا مخلوط انتخاب کی قباحتوں کو؟ ان امور پر غور کرکے آپ خود ایک راے قائم کریں اور اس بات کو نہ بھولیں کہ ہمارا آخری مقصود کبھی ہماری نگاہ سے اوجھل نہیں ہوا ہے۔ ہمیں بڑھنا اسی کی طرف ہے، مگر درمیانی مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے اور راہ کی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔دفعتاً چھلانگ لگا کر پہنچ جاناممکن نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن،جولائی۱۹۵۷ء)