جواب
مخلوط انتخاب کے حق میں جو بحث آپ نے کی ہے،اس سے پھر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ واقعی صورت حال کو نظرانداز کرکے ایک ایساخلا فرض کررہے ہیں جس میں آپ کی خیالی تجویزیں آپ کے حسب منشا نافذ ہو سکتی ہیں ۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہاں مجرد ایک انسانی آبادی رہتی ہے جس کا نہ کوئی ماضی ہے نہ حال۔ اس سادہ وبے رنگ مجموعے کے سامنے بس ایک اسلامی پروگرام رکھ دینا ہے۔حالاں کہ یہاں ایک ایسی آبادی رہتی ہے جس پر ایک طویل مدت سے جمہوریت، لادینیت اور وطنی قومیت کے تصورات پر مبنی ایک نظام عملاً مسلط رہا ہے۔ اس نظام کی جڑیں نہ صرف نظام حکومت میں ، بلکہ نظام تعلیم اور نظام تمدن میں بھی دُور دُور تک پھیلی ہوئی اور گہری جمی ہوئی ہیں ، اور اس نظام کے تینوں بنیادی تصورات ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی طرح جڑے ہوئے ہیں ۔
اس کے ساتھ دوسرا امر واقعہ جس سے ہم دوچار ہیں ، یہ ہے کہ اس آبادی میں صرف انسان نہیں ہیں بلکہ مسلمان اور غیر مسلم دو بڑے عنصر بستے ہیں اور غیر مسلم عنصر کا بڑا حصہ ہندوئوں پر مشتمل ہے۔مسلمانوں میں سے جس طبقے یا جن طبقات کے ہاتھ میں عملاً اس وقت زمام کار ہے، وہ ذہنی طور پر اس دینی نظام کا مخالف ہے جس کی طرف ہم ملک کو کھینچ ر ہے ہیں اور اس لادینیت کا حامی ہے جو ایک مدت دراز سے مسلط چلی آرہی تھی۔ غیر مسلموں میں جس ہند وعنصر کی غالب اکثریت ہے،اس کو وطنی قومیت کے تصور سے نہ صرف جذباتی وابستگی ہے بلکہ اس کی ساری تمنائیں اور اس کے سارے مفاد اس امر سے وابستہ ہیں کہ یہاں اسی تصور قومیت پر لادینی نظام قائم ہو۔ان حالات میں مخلوط انتخاب اس سادہ شکل میں نہ آئے گا جس میں آپ اسے اسلامی پروگرام پیش کرنے کے لیے موزوں سمجھتے ہیں ،بلکہ اپنے اس پورے تاریخی اورموجودہ پس منظر کے ساتھ آئے گا، اور ان تمام عناصر کا آلۂ کار بن کر آئے گا جو وطنی قومیت اور لادینیت کے حامی ہیں ۔خصوصیت کے ساتھ مشرقی پاکستان کے حالات پر جس کی نگاہ ہو،وہ کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ وہاں مخلوط انتخاب لادینی اور بنگلہ قوم پرستی کی بہ نسبت اسلامی پروگرام کے لیے زیادہ ساز گار ہوسکے گا۔دونوں کی پشت پر جوقوتیں اور جو موافق اسباب ووسائل وہاں موجود ہیں ، ان کا موازنہ کرنے سے یہ خوش فہمی بآسانی دور ہو سکتی ہے۔ جداگانہ انتخاب کے جتنے نقصانات اور مخلو ط انتخابات کے جتنے فوائد بھی آپ گنائیں ، ان کو جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جس واقعی صورت حال سے ہم کو اس وقت سابقہ درپیش ہے ،اس کو نظر انداز کرکے ان کے درمیان موازنہ کرنا اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرلینا حکمت عملی کے لحاظ سے کہاں تک درست ہے۔
اس بحث میں آپ اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ اسلامی پروگرام پیش کرنے کا ہر جگہ ایک ہی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے، بلکہ حال اور مقام کے لحاظ سے اس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں ۔ ایک جگہ وہ ہوتی ہے جہاں سب غیر مومن ہوتے ہیں ۔دوسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اگرچہ مومن موجود ہوتے ہیں مگر غلبہ کفار کا ہوتا ہے اور کفر ہی کا نظام مسلط رہتا ہے۔ تیسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والوں کا غلبہ ہوتا ہے مگر وہ غافل اور گمراہ ہوکر سراسر کافرانہ نظام پر چل رہے ہوتے ہیں ۔ ایک اور جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں تسلط تو کافرانہ نظام کا ہی ہوتا ہے مگر اقرار اسلام کرنے والوں کی اکثریت اسلامی نظام کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اور ان سب سے مختلف پوزیشن اس جگہ کی ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والے نہ صرف غالب ہوتے ہیں بلکہ اسلامی نظام کی نیو بھی رکھی جاچکی ہوتی ہے اور پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ اب اس ادھورے کام کی تکمیل کرنی ہے۔ پاکستان میں ہم پہلی چار حالتوں سے نہیں بلکہ اس آخری حالت سے دوچار ہیں ۔ یہاں آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کو پکارنا ہے جو اسلام کا اقرار کرتے ہیں ، اس غرض کے لیے پکارنا ہے کہ وہ ا س ادھوری تعمیر کی تکمیل کے لیے تیار ہوں ،اور وہ پروگرام پیش کرنا ہے جو اس مرحلے کے لیے درکار ہے۔ اس موقع پر اگر طریق انتخاب مخلوط ہو گا تو آپ کو بہت پیچھے ہٹ کر اس جگہ سے دعوت کا آغاز کرنا ہو گا جو مسلم اور غیر مسلم سب کو یکساں اپیل کرسکے اور رکھی ہوئی نیو کو نظر انداز کرکے بجاے خود نیو رکھنے کی بات شروع کرنی پڑے گی، جس پر ہر وہ شخص آپ کی عقل مندی پر ہنس دے گا جو واقعی صورت حال کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے بلکہ پروگرام اس ادھورے کام کی تکمیل ہی کے لیے پیش کریں گے تو مجھے بتایئے کہ کس عقل کی رُو سے آپ غیر مسلم آبادی کے پاس یہ دعوت لے کر جائیں گے کہ نیم دینی دستورکو کامل اسلا می دستور میں تبدیل کرنے اور دستور اسلامی کے تقاضوں کو بلا تحریف پورا کرنے کے لیے کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ یا اہل بصیرت درکار ہیں ،آئو ہمارے ساتھ تم بھی مل کر ان کا انتخاب کرو اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس رکھی ہوئی نیو کو ڈھا کر وطنی قومیت کی تصویر پر لادینی نظام تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔
پھر یہاں سوال صرف عقل وحکمت ہی کانہیں ، اسلام کے اس آئین کا بھی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ یہ آئین اسلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کو بہرحال ایک حیثیت میں نہیں رکھتا۔ ماننے والے خواہ ایمان اور عمل کے لحاظ سے کتنے ہی مختلف مراتب میں ہوں ،خواہ ان میں سے کوئی صدیقیت کا مرتبہ رکھتا ہو اور کوئی اسلام کی بالکل ابتدائی سرحد پر کھڑا ہو،بہرحال آئینی پوزیشن میں وہ سب برابر کے شریک ہیں ، اور نہ ماننے و الوں کی آئینی پوزیشن ان سے مختلف ہے۔ اسلامی نظام جب بھی قائم ہو گا، اسلام کے آئین کی رو سے اس کی عمارت مسلم معاشرے کی بنیاد ہی پر اٹھائی جائے گی، اس کے مدار کار وہی لوگ ہوں گے جو اس کے حق ہونے کا اقرار کرتے ہیں نہ کہ وہ جو اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اور اس کے اصحاب امر کا انتخاب اور ان کا عزل ونصب ماننے والوں ہی کے ہاتھ میں ہوگا نہ کہ نہ ماننے والوں کے ہاتھ میں ۔ یہ ا متیازاسلام خود قائم کرتا ہے۔اس کا پورا تقاضا تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہو۔لیکن اگر وقت اور حالات کی رعایت سے اس میں غیر مسلموں کی شرکت بھی قبول کرلی جائے تو کم ازکم اس کے مسلم ارکان کو مسلمانوں کی راے سے منتخب ہونا چاہیے،اس میں غیر مسلموں کی راے کا دخل ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ اس سے تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہو۔دعوت اسلامی میں رکاوٹیں پڑتی ہیں تو پڑا کریں ۔ہم اسلام کے موجد تو نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے جیسا چاہیں پروگرام بنائیں اور دعوت اسلامی کا مفاد جس طریقے میں ہم کو نظر آئے،اس کو اختیار کرلیں ۔ خود اسلام ہی جب اپنے نظام میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز کرتا ہے تو ہم اسلام سے بڑھ کر اس کے مفاد کو جاننے والے کون ہیں کہ اس امتیاز کو نظر انداز کرکے ایک نرالے اسلامی نظام کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھیں ۔ (ترجمان القرآن،جولائی۱۹۵۷ء)