جداگانہ انتخاب کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی، نفسیاتی وابستگی ہے، جو گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے برابر چلی آرہی ہے۔ جداگانہ انتخاب، الیکشن میں بطور نمایندگی کے، ہندوئوں کی عددی اکثریت کے مقابلے پر وجود میں آیا تھا، اور بدقسمتی سے یہ مسلمانان ہند کی سیاست کا واحد شاہکار بن کر رہ گیا۔ اب اگر اس ذریعے کو اسلامی دستور کے مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان میں استعمال کیا گیا تو بوجوہ ذیل ان مقاصد کا حاصل کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا: اوّلاً، اس صورت میں اسلامی پروگرام رکھنے والے فریق کی بہ نسبت اسلامی نام اور غیر مسلموں کی مخالفت کے نعروں اور سنسنیوں سے ووٹروں کو اپیل کرنے والا فریق ہمیشہ پیش پیش رہے گا، جیسا کہ گزشتہ پچا س سال سے وہ پیش پیش رہتا چلا آ رہا ہے۔ اس فریق نے پہلے بھی اسلام کا مقدس نام اپنی خواہشات کے لیے استعمال کیا اور اسلام کی غلط نمایندگی کی۔ آج بھی اس کی ذہنیت اور عملی زندگی بدستور سابق ہے، اور پہلے کی بہ نسبت کامیابی کے ذرائع آج اس کے پاس بہت زیادہ ہیں ۔ ثانیاً، مسلمان کثرت تعداد کے باوجود خود غرض سیاست دانوں کی دانش فریبیوں کے ہاتھوں غیر مسلموں کے مقابلے میں خوف واحساس کم تری کی ہسٹریائی کیفیت میں بآسانی مبتلا رکھے جائیں گے۔ ثالثاً، مسلمان راے دہندوں کے سامنے اپنے حلقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان امیدواروں کو کام یاب بنادینا ہی اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر رہ جایا کرے گا۔ رابعاً ،مسلم حلقوں میں ایک سے زیادہ مسلمان امید واروں کے درمیان اسلام کے نام پر جو کش مکش برپا کی جاتی رہے گی، وہ بجاے خوداسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ خامساً، غیر مسلم حلقے زیادہ سے زیادہ متحد ہوتے رہیں گے اور آگے چل کر وہ ایک ایسا متحدہ بلا ک بن سکتے ہیں جو غیر ملکی طاقتوں کا آلۂ کار ہو سکتا ہے اور جن کی ہم دردی میں غیر ملکی طاقتیں معاملات میں ایسی مداخلتیں کرسکتی ہیں جن سے ملک میں اعصابی جنگ اور کش مکش جاری رہے۔ سادساً ،آئندہ خطرہ ہے کہ ملک کی اس فرقہ وارانہ سیاست میں اسلام کی حیثیت ثانوی نہ رہ جائے، اسلام کی عمومی دعوت کے امکانات کم سے کم نہ ہوتے جائیں اور ملک کے اندر باہر غیر مسلم حلقے، اسلام کے مستقل حریف نہ بنتے جائیں ۔ سابعاً ،غیر اسلامی ملکوں میں اسلام کے قیام کے لیے کام کرنے والوں کے واسطے یہ ایک ایسی مثال ہوگی جس سے ان کی مشکلات میں بے اندازہ اضافہ ہوجائے گا اور وہ غیر مسلم اقوام وعوام کو انسانیت کی سطح پر اپیل کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں رہیں گے۔ اور آخر میں یہ کہ ہمارے اس ملک میں اہل ثروت واہل ریاست کو جو اثر حاصل ہے،اور جس طرح وہ فسق وفجور کی امامت میں پیش پیش ہیں ،جداگانہ انتخاب کے بعد ان کے ہاتھ اور مضبوط ہوجائیں گے۔ ان کے حلقے الیکشن کے لیے جس طرح آج ان کی بلا شرکت غیرے میراث بنے ہوئے ہیں ،جداگانہ انتخاب سے وہ مستحکم تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اب یا تو ان کی ثروت وریاست ختم ہو،یا ان کے مزاج اسلامی بنیں ۔ اور یہ دونوں چیزیں اﷲ کی خاص مہربانی سے ہی ممکن ہیں ،بندوں کے اختیار وتدبیر سے مشکل ہیں ۔ اس کے برخلاف،مخلوط انتخاب کی صورت میں ،جسے بجاے مخلوط کے عمومی انتخابات کہنا زیادہ موزوں ہو گا، پارٹی پروگرام پر کامیابی کی بنیاد رہ جائے گی، اگرچہ اس وقت اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت کو پوری پوری تن دہی اور جاں فشانی سے کام لینا ہوگا لیکن وہ اسلام کو پارٹی پروگرام بنا کر،اوّل تو ملک کے تمام باشندوں کو اپیل کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی، دوسرے یہ کہ وہ اس پروگرام کو نظری طور پر بین الاقوامی تحریک کی پوزیشن میں لا سکے گی، اور اسلام کے لیے، اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں کام کرنے والوں کے درمیان نقطۂ اتحاد کا کام دے سکے گی۔ تیسرے یہ کہ مقابلہ اشخاص سے اشخاص کا نہیں رہے گا بلکہ جماعتوں کے اصول اور پروگرام کا ایک دوسرے سے مقابلہ ہوگا۔ہم اسلام کے اصول اور پروگرام کو لے کر پوری قوم اور پورے ملک کے پاس جائیں گے۔ اس طرح اصول اور پروگرام پر دوسرے خود غرض اور مفاد پرست گروہوں سے کھلا ہوا آزادانہ اور مساویانہ مقابلہ ممکن ہوسکے گا۔ اور چوتھے یہ کہ جب بھی اسلامی جماعت کام یاب ہوگی،دوسرے عناصر کے تعاون کی محتاج ہوئے بغیر نہایت آسانی سے ملک کی پوری ہیئت ترکیبی کو اسلامی قالب میں تبدیل کرسکے گی اور ایک مثالی ریاست کا نمونہ پیش کرنے کے قابل بن سکے گی۔ آپ کے پمفلٹ’’مخلوط انتخاب کیوں اور کیوں نہیں ‘‘ میں اس حیثیت سے مسئلۂ انتخاب کا تجزیہ نہیں کیا گیاہے۔ میں گزارش کروں گا کہ آپ ان پہلوئوں پر بھی غور فرمائیں ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ مخلوط انتخاب کے موجودہ حامیوں کے ساتھ میں ہرگز متفق نہیں ہوں ، اس لیے کہ ان کا مقصد اس سے ایک ایسی پاکستانی نیشن بنانا ہے جس میں نہ کوئی مسلمان،مسلمان رہے اور نہ کوئی ہندو،ہندو۔جب کہ میرا مقصد اس سے پاکستان میں ایک ایسی نیشن بنانا ہے جو خالص مسلمان ہی مسلمان ہو۔ اگر سوئے تدبیر سے مخلوط انتخاب کو اوّل مقصد کے لیے ذریعہ بنایا گیا تو یقیناً میرا تعاون جداگانہ انتخاب کے ساتھ ہو گا۔ تاہم میری ہنوز دیانت دارانہ اور مخلصانہ راے یہ ہی ہے کہ اسلام کو، پارٹی پروگرام بنا کر، مخلوط انتخابات کو ذریعہ نمائندگی بنایا جائے، بشرطیکہ خالص اسلامی لیجس لیچر کا قیام فی الوقت ممکن نہ ہو۔ اس طرح اسلامی مقاصد بہتر طریقے پر اور آسانی سے حاصل کیے جاسکیں گے، اور جداگانہ انتخاب کے مقابلے میں کم رکاوٹیں پیش آئیں گی۔
جواب

مخلوط انتخاب کے حق میں جو بحث آپ نے کی ہے،اس سے پھر یہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ واقعی صورت حال کو نظرانداز کرکے ایک ایساخلا فرض کررہے ہیں جس میں آپ کی خیالی تجویزیں آپ کے حسب منشا نافذ ہو سکتی ہیں ۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہاں مجرد ایک انسانی آبادی رہتی ہے جس کا نہ کوئی ماضی ہے نہ حال۔ اس سادہ وبے رنگ مجموعے کے سامنے بس ایک اسلامی پروگرام رکھ دینا ہے۔حالاں کہ یہاں ایک ایسی آبادی رہتی ہے جس پر ایک طویل مدت سے جمہوریت، لادینیت اور وطنی قومیت کے تصورات پر مبنی ایک نظام عملاً مسلط رہا ہے۔ اس نظام کی جڑیں نہ صرف نظام حکومت میں ، بلکہ نظام تعلیم اور نظام تمدن میں بھی دُور دُور تک پھیلی ہوئی اور گہری جمی ہوئی ہیں ، اور اس نظام کے تینوں بنیادی تصورات ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی طرح جڑے ہوئے ہیں ۔
اس کے ساتھ دوسرا امر واقعہ جس سے ہم دوچار ہیں ، یہ ہے کہ اس آبادی میں صرف انسان نہیں ہیں بلکہ مسلمان اور غیر مسلم دو بڑے عنصر بستے ہیں اور غیر مسلم عنصر کا بڑا حصہ ہندوئوں پر مشتمل ہے۔مسلمانوں میں سے جس طبقے یا جن طبقات کے ہاتھ میں عملاً اس وقت زمام کار ہے، وہ ذہنی طور پر اس دینی نظام کا مخالف ہے جس کی طرف ہم ملک کو کھینچ ر ہے ہیں اور اس لادینیت کا حامی ہے جو ایک مدت دراز سے مسلط چلی آرہی تھی۔ غیر مسلموں میں جس ہند وعنصر کی غالب اکثریت ہے،اس کو وطنی قومیت کے تصور سے نہ صرف جذباتی وابستگی ہے بلکہ اس کی ساری تمنائیں اور اس کے سارے مفاد اس امر سے وابستہ ہیں کہ یہاں اسی تصور قومیت پر لادینی نظام قائم ہو۔ان حالات میں مخلوط انتخاب اس سادہ شکل میں نہ آئے گا جس میں آپ اسے اسلامی پروگرام پیش کرنے کے لیے موزوں سمجھتے ہیں ،بلکہ اپنے اس پورے تاریخی اورموجودہ پس منظر کے ساتھ آئے گا، اور ان تمام عناصر کا آلۂ کار بن کر آئے گا جو وطنی قومیت اور لادینیت کے حامی ہیں ۔خصوصیت کے ساتھ مشرقی پاکستان کے حالات پر جس کی نگاہ ہو،وہ کبھی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ وہاں مخلوط انتخاب لادینی اور بنگلہ قوم پرستی کی بہ نسبت اسلامی پروگرام کے لیے زیادہ ساز گار ہوسکے گا۔دونوں کی پشت پر جوقوتیں اور جو موافق اسباب ووسائل وہاں موجود ہیں ، ان کا موازنہ کرنے سے یہ خوش فہمی بآسانی دور ہو سکتی ہے۔ جداگانہ انتخاب کے جتنے نقصانات اور مخلو ط انتخابات کے جتنے فوائد بھی آپ گنائیں ، ان کو جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جس واقعی صورت حال سے ہم کو اس وقت سابقہ درپیش ہے ،اس کو نظر انداز کرکے ان کے درمیان موازنہ کرنا اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرلینا حکمت عملی کے لحاظ سے کہاں تک درست ہے۔
اس بحث میں آپ اس بات کو بھی بھول گئے ہیں کہ اسلامی پروگرام پیش کرنے کا ہر جگہ ایک ہی لگا بندھا طریقہ نہیں ہے، بلکہ حال اور مقام کے لحاظ سے اس کے مختلف طریقے ہوتے ہیں ۔ ایک جگہ وہ ہوتی ہے جہاں سب غیر مومن ہوتے ہیں ۔دوسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اگرچہ مومن موجود ہوتے ہیں مگر غلبہ کفار کا ہوتا ہے اور کفر ہی کا نظام مسلط رہتا ہے۔ تیسری جگہ وہ ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والوں کا غلبہ ہوتا ہے مگر وہ غافل اور گمراہ ہوکر سراسر کافرانہ نظام پر چل رہے ہوتے ہیں ۔ ایک اور جگہ ایسی ہوتی ہے جہاں تسلط تو کافرانہ نظام کا ہی ہوتا ہے مگر اقرار اسلام کرنے والوں کی اکثریت اسلامی نظام کی خواہش مند ہوتی ہے۔ اور ان سب سے مختلف پوزیشن اس جگہ کی ہوتی ہے جہاں اسلام کا اقرار کرنے والے نہ صرف غالب ہوتے ہیں بلکہ اسلامی نظام کی نیو بھی رکھی جاچکی ہوتی ہے اور پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ اب اس ادھورے کام کی تکمیل کرنی ہے۔ پاکستان میں ہم پہلی چار حالتوں سے نہیں بلکہ اس آخری حالت سے دوچار ہیں ۔ یہاں آپ کو سب سے پہلے ان لوگوں کو پکارنا ہے جو اسلام کا اقرار کرتے ہیں ، اس غرض کے لیے پکارنا ہے کہ وہ ا س ادھوری تعمیر کی تکمیل کے لیے تیار ہوں ،اور وہ پروگرام پیش کرنا ہے جو اس مرحلے کے لیے درکار ہے۔ اس موقع پر اگر طریق انتخاب مخلوط ہو گا تو آپ کو بہت پیچھے ہٹ کر اس جگہ سے دعوت کا آغاز کرنا ہو گا جو مسلم اور غیر مسلم سب کو یکساں اپیل کرسکے اور رکھی ہوئی نیو کو نظر انداز کرکے بجاے خود نیو رکھنے کی بات شروع کرنی پڑے گی، جس پر ہر وہ شخص آپ کی عقل مندی پر ہنس دے گا جو واقعی صورت حال کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے بلکہ پروگرام اس ادھورے کام کی تکمیل ہی کے لیے پیش کریں گے تو مجھے بتایئے کہ کس عقل کی رُو سے آپ غیر مسلم آبادی کے پاس یہ دعوت لے کر جائیں گے کہ نیم دینی دستورکو کامل اسلا می دستور میں تبدیل کرنے اور دستور اسلامی کے تقاضوں کو بلا تحریف پورا کرنے کے لیے کتاب وسنت کا علم رکھنے والے اہل تقویٰ یا اہل بصیرت درکار ہیں ،آئو ہمارے ساتھ تم بھی مل کر ان کا انتخاب کرو اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس رکھی ہوئی نیو کو ڈھا کر وطنی قومیت کی تصویر پر لادینی نظام تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔
پھر یہاں سوال صرف عقل وحکمت ہی کانہیں ، اسلام کے اس آئین کا بھی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ یہ آئین اسلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کو بہرحال ایک حیثیت میں نہیں رکھتا۔ ماننے والے خواہ ایمان اور عمل کے لحاظ سے کتنے ہی مختلف مراتب میں ہوں ،خواہ ان میں سے کوئی صدیقیت کا مرتبہ رکھتا ہو اور کوئی اسلام کی بالکل ابتدائی سرحد پر کھڑا ہو،بہرحال آئینی پوزیشن میں وہ سب برابر کے شریک ہیں ، اور نہ ماننے و الوں کی آئینی پوزیشن ان سے مختلف ہے۔ اسلامی نظام جب بھی قائم ہو گا، اسلام کے آئین کی رو سے اس کی عمارت مسلم معاشرے کی بنیاد ہی پر اٹھائی جائے گی، اس کے مدار کار وہی لوگ ہوں گے جو اس کے حق ہونے کا اقرار کرتے ہیں نہ کہ وہ جو اس کا اقرار نہیں کرتے۔ اور اس کے اصحاب امر کا انتخاب اور ان کا عزل ونصب ماننے والوں ہی کے ہاتھ میں ہوگا نہ کہ نہ ماننے والوں کے ہاتھ میں ۔ یہ ا متیازاسلام خود قائم کرتا ہے۔اس کا پورا تقاضا تو یہ ہے کہ اسلامی ریاست کی مجلس شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہو۔لیکن اگر وقت اور حالات کی رعایت سے اس میں غیر مسلموں کی شرکت بھی قبول کرلی جائے تو کم ازکم اس کے مسلم ارکان کو مسلمانوں کی راے سے منتخب ہونا چاہیے،اس میں غیر مسلموں کی راے کا دخل ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔ اس سے تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہو۔دعوت اسلامی میں رکاوٹیں پڑتی ہیں تو پڑا کریں ۔ہم اسلام کے موجد تو نہیں ہیں کہ اپنی مرضی سے جیسا چاہیں پروگرام بنائیں اور دعوت اسلامی کا مفاد جس طریقے میں ہم کو نظر آئے،اس کو اختیار کرلیں ۔ خود اسلام ہی جب اپنے نظام میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز کرتا ہے تو ہم اسلام سے بڑھ کر اس کے مفاد کو جاننے والے کون ہیں کہ اس امتیاز کو نظر انداز کرکے ایک نرالے اسلامی نظام کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھیں ۔ (ترجمان القرآن،جولائی۱۹۵۷ء)