آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہلِ کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوئوں میں اچھوتوں کی۔
جواب

آپ کے سوالات کا سرا حقیقت میں ابھی تک میں نہیں پاسکاہوں ۔اس وجہ سے جو جوابات میں دیتا ہوں ،ان میں سے کچھ اور ایسے سوالات نکل آتے ہیں جن کے نکلنے کی مجھے توقع نہیں ہوتی۔اگر آپ پہلے بنیادی امور سے بات شروع کریں اور پھر بتدریج فروعی معاملات اور وقتی سیاسیات(current politics) کی طرف آئیں تو چاہے آپ مجھ سے متفق نہ ہوں لیکن کم ازکم مجھے اچھی طرح سمجھ ضرور لیں گے۔سرِدست تو میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میری پوزیشن آپ کے سامنے پوری طرح واضح نہیں ہے۔
آپ نے اپنے عنایت نامے میں تحریر فرمایا ہے کہ’ ’جس اسلامی حکومت کا میں خواب دیکھ رہا ہوں ،اس میں ذمّی اور اہلِ کتاب کی حیثیت وہی ہوگی جو ہندوئوں میں اچھوتوں کی ہے‘‘۔مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا ۔یا تو آپ ذمّیوں کی حیثیت میرے صاف صاف بیان کردینے کے باوجود نہیں سمجھے ہیں ’یا ہندوئوں ‘ میں اُچھوتوں کی حیثیت سے واقف نہیں ہیں ۔اوّل تو اچھوتوں کی جو حیثیت ’’منّو‘‘ کے ’’دھرم شاستر‘‘ سے معلوم ہوتی ہے،اس کو ان حقوق ومراعات سے کوئی نسبت نہیں ہے جو اسلامی فقہ میں ذمّیوں کو دیے گئے ہیں ۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اچھوت پن کی بنیادنسلی امتیازپر ہے اور ذمیت کی بنیادمحض عقیدے پر۔ اگر ذمی اسلام قبول کرلے تو وہ ہمارا امیر وامام تک بن سکتا ہے۔ مگر کیا ایک شودر کسی عقیدہ ومسلک کو قبول کرلینے کے بعد ورن آشرم کی پابندیوں سے بری ہوسکتا ہے؟ ( ترجما ن القرآن، نومبر،دسمبر ۱۹۴۴ء)