آپ نے فرمایا ہے کہ میں اپنی ملکیت کو اس وقت شرعی وارثوں میں (جو موجود ہوں ) تقسیم کردوں ۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ میرے باپ پر جو حصے ازروے شریعت واجب الادا تھے تو یہ ان کے ذمے تھے۔میرے نام مرحوم والد نے اپنی زندگی میں ہر قسم کی ملکیت بروے ہبہ منتقل کردی تھی اوریہ واقعہ ان کی فوتگی سے چھ سال قبل کا ہے۔اندریں حالات مجھ پر صرف میرے اپنے ہونے والے ورثا کا حق واجب ہوگا یا والد مرحوم کے پس ماندگان کا بھی؟ اگر والد مرحوم کے پس ماندگان کو میں ان کا حق ادا کرنا بھی چاہوں تو میرے دوسرے بھائی اس معاملے میں ساتھ نہ دیں گے اور میں اکیلا ان کے حقوق پورے کر ہی نہیں سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ والد مرحوم کے ذمے داری سے متعلق تھا نہ کہ مجھ سے۔
جواب

وراثت کی تقسیم کا سوال ان موہوبہ اموال کے معاملے میں پیدا نہیں ہوتا جو کسی شخص نے اپنی زندگی میں (بشرطیکہ اندیشہ موت کی بنا پر نہ ہو) کسی کے دے دیے ہوں ۔ لیکن جوترکہ متوفیٰ نے چھوڑا ہو، وہ خواہ کم ہو یا زیادہ،اس کی تقسیم کا معاملہ وراثت کے قانون سے تعلق رکھتا ہے،اور اس معاملے میں کوئی ذمہ داری متوفیٰ پر نہیں ہے۔ بلکہ یہ پس ماندگان کا کام ہے کہ وہ اس ترکہ کو شریعت کے مطابق تقسیم کریں ۔بالفرض اگر دوسرے وارث ایسا کرنے پر راضی نہ ہوں تو آپ یہ کرسکتے ہیں کہ جو حصہ شرعاً آپ کو پہنچتا ہو،صرف اتنا ہی حصہ اپنے پاس رکھیں اور اس سے زائد جو کچھ ہو،اس کو متناسب طریقے سے ان وارثوں میں بانٹ دیں جو اپنے شرعی حصے سے محروم رہ گئے ہوں ۔
ہبہ کے بارے میں بھی یہ اطمینا ن کرلینا چاہیے کہ آیا یہ ہبہ اس نیت سے تو نہ تھا کہ وراثت کو شریعت کے مطابق تقسیم ہونے سے روکا جائے۔ (ترجمان القرآن ، اکتوبر۱۹۵۰ء )