جواب
پچھلے عنایت نامے کے جواب میں شاید میں اپنی بات آپ کے سامنے پوری طرح واضح نہ کرسکا،اسی لیے آپ کو پھر اس سلسلے میں کچھ ارشاد فرمانے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ورنہ اگر میرا مدعا آپ پر واضح ہوجاتا تو امید نہ تھی کہ یہ ضرورت محسوس ہوتی۔ میں مختصراً اپنی بات کی پھر وضاحت کرتا ہوں ۔
یہ تو آپ جیسے صاحب علم سے مخفی نہیں ہے کہ اَلْمُجْتَھِدُ یُخْطِیُٔ وَیُصِیْبُ پھر یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ سلف سے خلف تک اہل علم نے نہ تو یہ طریقہ کبھی اختیار کیا ہے کہ جس کے فضل وشرف کے قائل ہوں اس کو بے خطا سمجھیں ،اور نہ یہی ان کا طریقہ رہا ہے کہ جس کے اجتہاد میں کسی چیز کو غلط اور خطا سمجھیں ، اس کی مخالفت پر اُتر آئیں اور اس کے فضل کا انکار کردیں ۔اس کے بجاے انھوں نے جس چیز کو خطا سمجھا،اسے دلیل کے ساتھ رد کردیا،مگر اجتہاد کی غلطی کو کسی صاحب فضل کے فضل میں قادح نہیں مانا۔ وہ خطاے اجتہادی کو خطا بھی کہتے تھے اور اس سے اختلاف بھی کرتے تھے،مگر اس کے ساتھ مجتہد کا احترام بھی ملحوظ رکھتے تھے اور اس کی خطا کے سبب سے اس کے صواب پر پانی نہ پھیر دیتے تھے۔
یہی مسلک اس معاملے میں میرا بھی ہے۔ میں یہ نہیں مان سکتا کہ مثلاًجن بزرگوں نے سماع کو تقرب الی اﷲ کے ذریعہ کی حیثیت سے اختیار کیا ،ان کا اجتہادصحیح تھا۔ یا مثلاً جن حضرات نے تصور شیخ کا طریقہ اختیار کیا، وہ اپنے اجتہاد میں صائب تھے۔میں ان چیزوں کو غلط سمجھتا ہوں اور ان سے اختلاف کرنا اور لوگوں کو ان سے اجتناب کا مشورہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔ مگراس کے ساتھ ان صوفیاے کرام کی شان میں کوئی گستاخی کرنا درست نہیں سمجھتا جن کی طرف یہ طریقے منسوب ہیں ۔
(ترجمان القرآن ،اگست۱۹۶۱ء)