تفہیم القرآن جلد ا، صفحہ۴۲۱:’’پس جو چیز قرآن کی روح سے زیادہ مطا بقت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ عیسیٰ ؈ کے رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی۔‘‘ کیا یہ مسئلہ قرآنی لحاظ سے مجمل ہے؟ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ میں اگر قتل جسم کی تصریح ہے تو اسی ایک جملہ کے ایک جز رَفَعَہٗ میں کون سا اجمال آگیا؟بصورت دیگر انتشارِ ضمائر لازم نہ آئے گا جو معیوب ہے؟یہاں رفع جسم سے کون سا قرینہ مانع ہے جب کہ احادیث رفع جسمانی ہی روایت کر رہی ہیں تو یہاں کیوں رفع جسم مراد نہ ہو؟ پھر اجماع اُمت بھی اس پر منعقد ہوچکا ہے تو کیا وجہ ہے کہ متفق علیہ مسئلے کو قرآن کی روح کے لحاظ سے مجمل کہہ کر مشتبہ بنایا جائے؟ پھر الفاظ بھی ایسے مؤکد کہ قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت۔
جواب

اس اعتراض کا جواب دسمبر ۱۹۵۵ء کے ترجمان القرآن میں صفحہ ۲۸۰ پر دیا جاچکا ہے] سوال نمبر۷۶۶ [ ملاحظہ کیجئے۔
( ترجمان القرآن، مئی۱۹۵۶ء)