اہل اسلام کے نزدیک اگر مسیح آسمان پر زندہ ہیں اور وہی آنے والے ہیں ، پیغمبر اسلام کے ظہور سے پہلے بھی وہی اور بعد میں بھی وہی، تو اس صورت میں درمیان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے ظہور کا کیا مطلب؟ جبکہ غلبۂ متبعینِ مسیح کا وعدہ استمرار بلا فصل کے معنوں میں قیامت کے لیے پیش کیا جاچکا ہے۔
جواب

مسیح کے بعد محمدﷺ کے ظہور کا مطلب آپ ہم سے پوچھنے کے بجاے خود مسیح؈ سے پوچھیے۔ جن کا یہ ارشاد تمام تحریفات کے باوجود کتاب یوحنا میں اب تک موجود ہے:
’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو وہ مددگار (تسلی دہندہ، یا وکیل یا شفیع) تمھارے پاس نہ آئے۔ لیکن اگر جائوں گا تو اسے تمھارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھیرائے گا۔‘‘ (یوحنا: ۱۶:۷۔۸)
اور یہ کہ:
’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمھارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کی روح جو باپ کی طرف سے نکلتی ہے، تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘ (یوحنا۱۵:۲۶)
اور یہ کہ:
’’لیکن مددگار یعنی سچائی کی روح جسے باپ میرے نام سے بھیجے وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمھیں یاد دلائے گا۔‘‘ (یوحنا۱۴:۲۶)
اور یہ کہ:
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ۔‘‘ (یوحنا۱۴:۳۰)
اور یہ کہ:
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا۱۶:۱۲۔۱۳)
مسیح کے ان ارشادات سے آپ محمد ﷺ کے ظہور کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ۔ غلبۂ متبعین مسیح کا وعدہ، جو آپ کے نزدیک ’’استمرار بلا فصل‘‘ کے معنوں میں قیامت تک کے لیے پیش کیا گیا ہے آں حضرت کے ظہور سے ٹوٹتا نہیں ، اور زیادہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آپ نے آکر مسیح کی گواہی دی اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللہِ ({ FR 1500 }) (النسائ:۱۷۱ ) اور وَجِيْہًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَo ({ FR 1501 }) (آل عمران:۴۵) اور اس بہتان عظیم پر یہودیوں کو توبیخ کی جو وہ مسیح اور اس کی ماں پر رکھتے تھے۔ وَّبِكُفْرِہِمْ وَقَوْلِـہِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُہْتَانًا عَظِيْمًاo({ FR 1502 }) (النساء:۱۵۶) اور وہ سب باتیں مسیحیوں کو یاد دلائیں جو مسیح نے ان سے کہی تھیں وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۝۰ۭ({ FR 1503 }) (المائدہ:۴۷ )مسیح اسی لیے گئے تھے کہ اس دوسرے آنے والے کے لیے جگہ خالی کر دیں جو ان کے بعد آکر اس کام کو پورا کرنے والا تھا جسے وہ نامکمل چھوڑ گئے تھے۔