جواب
آیت مذکورہ کا یہ مطلب میرے نزدیک صحیح نہیں ہے کہ یہودی آں حضرت ﷺ کی بعثت سے قبل آپؐ کے توسل سے کفار کے مقابلے میں فتح کی دُعائیں مانگا کرتے تھے۔بلکہ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام راغبؒ کے پہلے دو اقوال سے بھی نکلتا ہے اور جس کی تائید معتبر روایات سے بھی ہوتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے یہودی ان پیشین گوئیوں کی بنا پر جو آپﷺ کے متعلق ان کی کتابوں میں موجود تھیں ، یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ وہ نبی آئے اور پھر اس کی بدولت ہمیں کفار پر غلبہ حاصل ہو۔ چنا نچہ ابن ہشام کی روایت ہے کہ مکہ معظمہ میں حج کے موقع پر جب پہلی مرتبہ مدینہ کے چند لوگوں سے نبی ﷺ کی ملاقات ہوئی اور آپ ؐنے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو وہ آپس میں کہنے لگے:
يَا قَوْمِ، تَعْلَمُوا وَاللَّهِ أنَّهُ لَنَبیُّ الَّذِي تَوَعَّدَكُمْ بِهِ يَهُودُ، فَلَا تَسْبِقُنَّكُمْ إلَيْهِ({ FR 1533 })
’’لوگو!جان لو کہ بخدایہ وہی نبی ہے جس کی آمد کا خوف تم کو یہودی دلایا کرتے تھے۔پس ایسا نہ ہونے پائے کہ تم سے پہلے وہ اس کے پاس پہنچ جائیں ۔‘‘
پھر آگے چل کر ابنِ ہشام اسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے انصار مدینہ کے بڑے بوڑھوں کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
فِينَا وَاللَّهِ وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْقِصَّةُ، كُنَّا قَدْ عَلَوْنَاهُمْ ظَهْرًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَنَحْنُ أَهْلُ شِرْكٍ وَهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ فَكَانُوا يَقُولُونَ لَنَا: إنَّ نَبِيًّا يُبْعَثُ الْآنَ نَتَّبِعُهُ قَدْ أَظَلَّ زَمَانَهُ، نَقْتُلُكُمْ مَعَهُ قَتْلَ عَادٍ وَإِرَمَ. فَلَمَّا بَعَثَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قُرَيْشٍ فَاتَّبَعْنَاهُ كَفَرُوا بِهِ۔({ FR 1534 })
’’یعنی یہ آیت ہمارے اور یہودیوں کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔جاہلیت میں ہم ان پر غالب ہوگئے تھے اور ہم اہل شرک تھے اور وہ اہل کتاب۔پس وہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ عن قریب ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے جس کی آمد کا وقت آپہنچا ہے۔ہم اس کی قیادت میں تم کو اس طرح ماریں گے جیسے عاد ارم مارے گئے۔ مگر جب اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲﷺکو قریش سے مبعوث کیا تو ہم نے آپ کی پیروی اختیا ر کرلی اور انھوں نے آپﷺ کا انکار کردیا۔‘‘
رہی جامع ترمذی کی وہ حدیث جو آپ نے نقل فرمائی ہے، تو اس کا مضمون تو آپ ہی بتا رہا ہے کہ استدعا نبی سے کی گئی تھی کہ آپؐ دعا فرمائیں اور آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ اچھا تو اﷲ تعالیٰ سے دُعا کر کہ’’خدایا! میں تیرے نبیؐ کے واسطے سے تیرے حضور اپنی حاجت لے کر آیا ہوں ۔تو میرے حق میں اپنے نبی (ﷺ) کی سفارش قبول کر۔‘‘اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ نبی ﷺ نے خود بھی اس کے حق میں دُعا فرمائی اور اس سے بھی فرمایا کہ میرے واسطے سے تو بھی اپنی حاجت طلب کر اور میری سفارش قبول کیے جانے کی بھی دُعا مانگ۔ یہ تو دُعا کی بالکل ایک فطری صورت ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص مجھ سے کہے کہ فلاں حاکم کے پاس چل کر میری سفارش کرو اور میں سفارش کرنے کے ساتھ ساتھ اس شخص سے بھی کہوں کہ تو خود بھی حاکم سے عرض کر کہ میں انھیں سفارشی بنا کر لایا ہوں ،آپ ان کی سفارش قبول کرکے میری حاجت پوری کردیں ۔ یہ معاملہ اور ہے۔اس کے برعکس یہ ایک بالکل دوسرا طریق معاملہ ہے کہ کوئی شخص مجھ سے اجازت لیے بغیر خود ہی حاکم کے پاس پہنچ جائے اور اپنی جو حاجت بھی چاہے میرا واسطہ دے کر پیش کردے۔اس دوسری صورت کو آخر پہلی صورت پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے؟ دلیل پہلی صورت کی پیش کرنا اور اس سے جواز دوسری صورت کا نکالنا کسی طرح درست نہیں ۔ دوسری صورت کا جواز ثابت کرنے کے لیے تو حضور ﷺ کا کوئی ایسا قول ملنا چاہیے جس میں آپﷺ نے اپنے تمام نام لیوائوں کو عام اجازت مرحمت فرمائی ہو کہ جس کا جی چاہے اپنی حاجت میرا واسطہ دے کر اﷲ سے طلب کرلے۔
(ترجمان القرآن ،فروری۱۹۵۳ء)