جواب
اس مسئلے پر میں خود برسوں غور کرتا رہا ہوں اور آخر کار اس مختصر سے فقرے نے جو عام طور پر مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھا ہوا ہے،مجھے مطمئن کردیا ،یعنی الَسَّعْیُ مِنِّی وَالْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہِ ({ FR 1130 }) میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم جس بات پر مامور ہیں ، وہ صرف یہ ہے کہ مختلف راہوں میں سے اس راہ کو اپنے لیے منتخب کرلیں جسے ’’صراطِ مستقیم‘‘ کہا گیا ہے، اور اپنی تمام ممکن سعی وجہد اس پر چلنے میں صرف کردیں ۔ اس کے بعد اسباب کی فراہمی اور راہ نوردی کی قوت اور مشکلاتِ راہ کی تسہیل، یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ اگر بڑے پیمانے پر سعی کرنے اور بلند درجے پر پہنچنے کی توقع نہ ہو تو ہم صحیح راہ کو چھوڑ کرکسی ایسی غلط راہ کی طرف چل پڑیں جس میں کچھ بڑے اور بلند درجے کا کام کیا جاسکتا ہو۔ہمیں بہرحال صحیح کام کرنا ہے،خواہ وہ بڑے پیمانے پر ہو یا چھوٹے پیمانے پر۔
یہ تو اس معاملے کاایک پہلو ہے۔دوسراپہلو یہ ہے کہ جن غیر معمولی اخلاقی قوتوں کی اس کام کے لیے ضرورت ہے اور جیسی مؤثر شخصیت یا شخصیتیں اس کام میں جان ڈالنے کے لیے ضروری ہیں ، وہ بہرحال حجروں میں پیدا نہیں ہوسکتیں ، بلکہ اس راہ کی عملی جدوجہد کے نتیجے ہی میں پیدا ہوا کرتی ہیں ۔ ابھی اس سعی کی ابتدا ہے اور آزمائش کے لمحات بہت کم آئے ہیں ، اس وجہ سے اس سعی کے مردم سازاثرات آپ کے سامنے پوری طرح نمایاں نہیں ہو سکے ہیں ۔ لیکن آگے چل کر جیسے جیسے امتحان کے مواقع سامنے آتے جائیں گے،آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ اﷲ سے گہرا تعلق رکھنے والے نہیں ہیں ، وہ کسی نہ کسی امتحان کی گھڑی پر اپنی کمزوری کے خود شکار ہوجائیں گے اور راستے سے ہٹ جائیں گے، اور جن لوگوں کو فی الواقع اﷲ سے تعلق ہو گاوہ نہ صرف یہ کہ ایک ایک امتحان کے موقع پر کامیاب ہوں گے بلکہ ہر امتحان اُن کی سیرت میں ایک نئی طاقت پیدا کردے گا، ان کے اندر کی بہت سی کھوٹ نکال دے گا اور بالآخر وہ زرِ خالص بن جائیں گے۔ پھر رفتہ رفتہ انھی لوگوں میں پارس کی سی خصوصیات پیدا ہوجائیں گی کہ جو اُن سے چھو گیا وہ سونا بن گیا۔
بہرحال میں اس معاملے میں مطمئن ہوچکا ہوں کہ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے مکمل شخصیت یا شخصیتوں کے موجود ہونے کی شرط لگانا غلط ہے۔یہ شرط کبھی متحقق نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اس کے برعکس صحیح یہ ہے کہ ایک مرتبہ خلوصِ نیت کے ساتھ یہ کام شروع کردیا جائے تو رفتہ رفتہ یہی کام خود مکمل شخصیتیں بناتا چلا جاتا ہے، اور جتنا جتنا یہ اپنی تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھتا ہے اتنی ہی بلندتر شخصیتیں اس کے کارکنوں میں سے اُبھرتی چلی آتی ہیں ۔سمندر کی موجوں سے لڑنے کے لیے آپ ایسے آدمی کبھی نہیں لاسکتے جو سمندر کے اندر اُترنے سے پہلے اس کی موجوں سے لڑنے کی قوت فراہم کرچکے ہوں ۔ یہ قوت تو بہرحال سمندر میں کودنے اور موجوں سے لڑنے ہی سے پیدا ہوسکتی ہے۔ جو کمزور ہیں وہ اسی سمندر میں ڈوب مرتے ہیں ، اور جن کے دست وبازو میں اﷲ نے قوت پیداکی ہے وہ تھپیڑے کھا کھا کر اورموجوں سے لڑ لڑ کر بالآخر پیراکوں کے پیراک بن جاتے ہیں ۔
(ترجمان القرآن ، مئی۔ جون،۱۹۴۴ء)