جواب
ہم نے یہ جماعت اس لیے نہیں بنائی ہے کہ ایک ایک آدمی ایک ایک مجبوری کی بنا پر دین واخلاق کے ایک ایک اُصول کو توڑتا چلا جائے۔اگر ہمیں ایسا کرنا ہوتا تو پھر اس جماعت کے بنانے کی ضرورت ہی کیاتھی۔ ہمارے پیش نظر تو ایسے لوگوں کو منظم کرنا ہے جو بہرحال صداقت اور دیانت پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور جھوٹ اور بددیانتی کی طاقتوں سے دبنے کے بجاے ان سے لڑیں ۔ اگر ہم اس طرح جماعت کے نظم میں ڈھیل دیتے چلے جائیں کہ جن جن بددیانتیوں کے لیے لوگ مجبور ہوں ان کی اجازت دے دیا کریں ، تو اس جماعت میں بھی ضعیف الاخلاق لوگ جمع ہوجائیں گے اور ان سے کوئی اصلاح کا کام نہ ہوسکے گا۔
یہ ہم کو معلوم ہے کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس نے کس طرح تمام تجارت پیشہ لوگوں کو جھوٹا اور جعل ساز بنا دیا ہے۔ یہ بھی ہم کو معلوم ہے کہ سرکاری ملازموں کو رشوت دے کر بڑی آسانی سے وہ تما م تکلیفیں رفع کی جاسکتی ہیں جو اس سلسلے میں پیش آسکتی ہیں ۔یہ بھی ہم کو معلوم ہے کہ اگر کوئی رشوت بھی نہ دے اور جعلی حسابات بھی نہ رکھے تو اس کے لیے کاروبار چھوڑ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود نہ ہم اپنے ارکان کو رشوت دینے کی اجازت دے سکتے ہیں اور نہ جعلی حسابات رکھنے کی۔ اس کے بجاے ان کا کام یہ ہے کہ وہ تجارت پیشہ لوگوں میں اخلاقی حس پیداکرنے کی کوشش کریں ، ان کو منظم کریں اور ان کی باقاعدہ انجمنیں قائم کرکے — اور اگر وہ پہلے سے قائم ہوں تو ان کی راے کو ہموار کرکے — یہ متفقہ فیصلہ کرائیں کہ کوئی شخص کسی سرکاری افسر کو ایک پیسا رشوت نہ دے، کوئی جھوٹے حسابات نہ رکھے، اگر سرکاری ملازمین انتقاماً ان کے اصلی حسابات کو غلط قرار دے کر ان کی فروخت یا آمدنی فرضی طور پر زائد تشخیص کریں اور ان پر زیادہ ٹیکس عائد کریں تو کوئی شخص اس ٹیکس کا ایک پیسا ادا نہ کرے۔اگر ایسے بے جا ٹیکس کی وصولی کے لیے کسی کی دکان کا مال نیلام کیا جائے تو اس پر کوئی شخص بولی نہ دے۔جب تک اس طرح کی تنظیمیں نہ ہوں گی،ہمارے ارکان کو نقصان اُٹھاکر کام کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ ننانوے بے ایمانوں کے درمیان ایک ایمان دار کبھی چین سے زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر سب کو —یا کم ازکم اکثریت ہی کو — دیانت اور راست بازی پر متفق کرلیا جائے تو سب کے لیے حلال روزی حاصل کرنا بھی ممکن ہوجائے گا اور سرکاری ملازمین کی زیادیتوں کا بھی سد باب ہوسکے گا۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۱ء)