ایک عرصے سے ایک اُلجھن میں مبتلا ہوں ۔ براہِ کرم اس سلسلے میں راہ نمائی فرمائیں ۔ الجھن یہ ہے کہ عہد نبویؐ و خلافت راشدہ کو چھوڑ کر آج کی تاریخ تک مسلمانوں کا وہ گروہ ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا چلا آ رہا ہے جس نے دین و ایمان کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناکامی کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا سبب زیادہ تر اپنے ہی دینی بھائی بنتے رہے اور آج بھی بنے ہوئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ’’دین‘‘ جو دنیاوی زندگی کو درست کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کا سارے کا سارا ضابطہ دنیوی زندگی میں عمل کرنے کے لیے ہے، جسے غالب کرنے کے لیے کئی خدا کے بندے اپنی زندگیاں ختم اور کئی وقف کر چکے ہیں ، غالب کیوں نہ آسکا؟ اور دنیا کی غالب آبادی ’’دین اسلام‘‘ کی برکتوں سے عام طور پر کیوں محروم رہی ہے؟ خلق خدا کی عظیم الشان اکثریت چند مٹھی بھر زبردستوں کے ظلم و ستم کیوں سہتی چلی آ رہی ہے؟ معاشی بے انصافی، تنگ دستی اور اذیتوں کی درد ناک صورتوں سے کیوں دو چار ہے؟ اور امن و سلامتی قائم کرنے والا دین حق اور اس کے نام لیوا کمزوروں ، بے بسوں ، مجبوروں اور معذوروں کا سہارا بننے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟
جواب

آپ جس اُلجھن میں مبتلا ہیں وہ بآسانی حل ہوسکتی ہے اگر آپ ایک مرتبہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اس دنیا میں اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے اور اسی آزادی کے استعمال میں اس کا امتحان ہے۔ اس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظام باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اس دعوت اور اس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ ان انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اسی طرح دعوت حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظام حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظام حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔ دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی میں حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا۔ بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سر بلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوع انسانی کو زمین پر اتارتے وقت اللّٰہ تعالیٰ نے صاف صاف بتا دی تھی کہ:
فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَo وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ ( البقرہ:۳۸،۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہل حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں ۔ بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں ۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں ، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور ان کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔
بسا اوقات آدمی کے ذہن میں یہ الجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں ، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہو جاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پا سکتے ہیں ۔ درحقیقت یہ اس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرمان برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے تو وہ تمام انسانوں کو اسی طرح مطیع فرمان پیداکر دیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیع فرمان ہیں ۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ اس طریقے کو چھوڑ کر جب اللّٰہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوع انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے اور جب اس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔
اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو اور باطل کے علم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں ) سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کر دے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاں تک جان لڑاتے ہیں ۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علم برداروں کا اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اورحق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں ۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہو رہا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللّٰہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے، ان پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معما ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی الجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں ۔ اس میں فیصلہ کن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہر شخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۷ء)