میری ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہے جو عالم دین ہیں ، جماعت کی دعوت اور طریق کار کو عین حق سمجھتے ہیں اور جماعت سے باقاعدہ متفق ہیں اس کے باوجود نظم جماعت کی پابندی اور اطاعت امیر کا جب ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں ایسی مختلف تنظیمیں جو مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں دین کا کام کرنے کے لیے قائم ہوں ،ان کے نظم کی پابندی ا ور ان کے اولی الامر کی اطاعت فرض نہیں ہے۔اطاعت تو رسول اﷲ ﷺ اور خلفاے راشدین کی فرض تھی نہ کہ ایسی جماعتوں کے امرا کی جو وقتاًفوقتاً مختلف ملکوں میں دین کا کام کرنے کے لیے تشکیل پاتی رہیں ۔ گویا کہ اب کوئی اور کام کرنے کا رہا نہیں ہے۔حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اگر اس دور میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوجائے تو اس کے امیر کی اطاعت بھی اسی طرح فرض ہوگی جیسے خلفاے راشدین کے دور میں تھی۔ ایک عالم دین کی زبان سے یہ باتیں سن کر میں سکتے میں رہ جاتا ہوں ۔میں نے اپنے ناقص علم کی حد تک انھیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا اوّل اور آخر جملہ یہی ہے کہ یہ باتیں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ یا نفل کا درجہ رکھتی ہیں ۔یہ وہ انداز فکر ہے جو تحریک اسلامی کے نشو ونما کے لیے سم قاتل ہے۔اس کا کسی ایسے نوجوان کے کانوں میں پڑ جانا جس نے ابھی اس راہ میں قدم رکھا ہی ہو،اس کے قواے عمل کو مفلوج کردینے کے لیے کافی ہے۔پس اس لیے نہیں کہ ان صاحب کو مطمئن کرنا ہے،بلکہ اس لیے کہ اس کے اثرات دوسروں پر متعدی ہوسکتے ہیں ،ان غلط خیالات کی تردید بہت ضروری معلوم ہوتی ہے۔یوں تو جماعت کا تمام لٹریچر ان کاجواب پیش کرتا ہے، لیکن غالباً کسی ایک جگہ اس کا مختصر او رمدلل جواب موجود نہیں ہے۔ ان صاحب کا ذہن فقہی اصطلاحات میں اس طرح الجھا ہوا ہے کہ جماعت کے لٹریچر کے سارے دلائل انھیں بے وزن معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جماعت کی کتابوں میں دلائل نہیں ہوتے۔ پہلے تو میں ان کے اس جملے کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔کیوں کہ جماعت کے لٹریچر کا دلائل سے مسلح ہونا ہی تو وہ وصف ہے جس کا لوہا مخالفین بھی مانتے ہیں ۔اس لیے جب ان سے وضاحت چاہی گئی تو کہنے لگے کہ اس میں فقہ حنفی یا دیگر مکاتب فقہ کی کتابوں کاحوالہ نہیں ہوتا۔قرآن وسنت سے محض اپنے ہی نقطۂ نظر سے استدلال کیا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو کا لُب لُباب یہ ہے کہ اگر فقہ حنفی کی کسی کتاب میں یہ دکھا دیا جائے کہ اقامت دین اور اس کے لیے ایک جماعت کا قیام اور پھر اس کے نظم سے وابستگی اور اس کے امیر کی اطاعت فرض عین ہے،تب تو وہ مانیں گے،ورنہ وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ اگر جماعت کے اجتماعات میں شرکت پر ان سے اصرار کیا جائے اور ہفتہ وار رپورٹ طلب کی جائے تو وہ ’’متفقیت‘‘ سے بھی مستعفی ہوجائیں گے۔ اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر جواب میں فقہ حنفی کی کتابوں کا حوالہ بھی ممکن ہو تو دیا جائے، شاید کہ ان کے دل کی گرہیں کھل جائیں ۔ ایک اور بزرگ ہیں جو پہلے تو جماعت سے اس حد تک تعلق رکھتے تھے کہ رکنیت کی درخواست دینے والے تھے لیکن یکایک ان کے ذہن رسا میں ایک نکتہ پیدا ہوا اور وہ اپنا دامن جھاڑ کر جماعت سے اتنی دُور جاکھڑے ہوئے گویا انھیں جماعت سے کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔وہ فرماتے ہیں کہ اسلامی دستور کی تشکیل کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست بن چکا ہے اور یہاں تمام مسلمان شہری ایک نظام اطاعت میں منسلک ہوچکے ہیں ۔یہ نظام اطاعت سب کو جامع اور سب پر فائق ہے۔اب سب کی اطاعتیں اس بڑے نظام اطاعت کے گرد جمع ہوچکی ہیں ۔لہٰذا اس کی موجودگی میں کسی اور نظم کا قائم ہونا اور افراد سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک حکومت کے اندر ایک متوازی حکومت کا قائم کرنا۔خلاصہ یہ کہ اب کسی جماعت، کسی تنظیم اور کسی امیر کی ضرورت نہیں ہے۔پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے ،حکومت اس کا تنظیمی مظہر ہے، تمام مسلمان شہری اب کسی جماعت کے نہیں بلکہ اس ریاست کی ہمہ گیر تنظیم کے رکن ہیں ، اور ان کی تمام اطاعتیں اور وفاداریاں اسی تنظیم کاحق ہیں نہ کہ کسی اور جماعت کا۔ اب اطاعت کسی کی نہیں بلکہ ریاست کے صدر کی ہونی چاہیے۔ یہ وہ طرزاستدلال ہے کہ اس کے نتیجے میں شہریوں کا حق انجمن سازی (right to form association) ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اور نہ صرف ختم ہوجاتا ہے بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی حکومت کے خلاف بغاو ت کرنے کے مترادف ہے۔آپ کے پاس اس استدلال کا کیا جواب ہے؟کیا اسلامی ریاست واقعی ایک ایسی ریاست ہوگی جس میں کسی دوسری پارٹی کو جنم لینے اور جینے کا موقع نہیں ملے گا؟اگر ملے گا تو ایک نظام اطاعت کے لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہوگی؟کیا اب کسی مسلمان کا یہ استدلال درست ہے کہ اب اسے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کسی جماعت میں شریک ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ وہ ایک اسلامی ریاست کا ایک شہری ہے۔علمی حیثیت سے یہ سوالات خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جواب علمی طریق پر ہی دیا جانا چاہیے۔
جواب

نظم جماعت کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ احکام کفر کے مقابلے میں احکام الٰہی کے اجرا کی کوشش بہرحال منظم اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔لہٰذا اس کے لیے جماعت کا وجود اور جو جماعت موجود ہو، اس کا التزام ضروری ہے۔اس مضمون پر کثیر التعداد احادیث دلالت کرتی ہیں ۔البتہ جہاں تمام اہل ایمان کی ایک جماعت موجود نہ ہو اور اس مقصد عظیم کے لیے اجتماعی قوت پیدا کرنے کی مختلف کوششیں ہورہی ہوں ،تو التزام جماعت کے ان احکام کا اطلاق تو نہ ہوگا جو الجماعت کی موجودگی میں شارع نے دیے ہیں ،لیکن کوئی ایسا شخص جو اقامت دین کے معاملے کی شرعی اہمیت سے واقف ہو اور اس معاملے میں ایک مومن کے فرض کا احساس رکھتا ہو،ان کوششوں کے ساتھ بے پروائی کا رویہ اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے لازم ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان کا جائزہ لے اور جس کوشش کے بھی صحیح وبرحق ہونے پر مطمئن ہوجائے ،اس میں خود بھی حصہ لے۔ پھر حصہ لینے کی صورت میں (یعنی جب کہ آدمی ایک جماعت کو برحق جان کر اس سے وابستہ ہوچکا ہو) نظم و اطاعت کا التزام نہ کرنا سراسرایک غیر اسلامی فعل ہے۔یہ اطاعت محض نفل نہیں بلکہ فرض ہے، کیوں کہ اس کے بغیر فریضۂ اقامت دین عملاًادا نہیں ہوسکتا۔احادیث میں اطاعت امر کے جو احکام آئے ہیں ، اور خود قرآن میں اطاعت اولوا ا لامر کا جو فرمان خداوندی آیا ہے، ان کے متعلق یہ سمجھنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ احکام صرف رسول اﷲ ﷺ اور خلفاے راشدین کے عہد کے لیے تھے۔ اگر یہ بات ہو تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اب نہ کوئی اسلامی حکومت چل سکتی ہے اور نہ کبھی جہاد فی سبیل اﷲ ہوسکتا ہے، کیوں کہ نظام کی پابندی اور سمع وطاعت کے بغیر ان چیزوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔میں سخت حیران ہوں کہ کوئی شخص جس کو علم دین کی ہوا بھی لگی ہو، ایسی بے سروپا باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔
دوسرے جن صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کی عقل نے وہ نکتہ پیدا کیا جو ابھی تک موجودہ ’’امراء المومنین‘‘ کو بھی نہیں سوجھا ہے۔اگر یہ بات انھیں سوجھ جائے تو ملک کی تمام جماعتوں کو بیک جنبش قلم ختم کرکے ہمیشہ کے لیے ہر اس شخص کا منہ بند کردیں جو یہاں احکام اسلامی کے اجرا کا نا م لے اور پھر یہاں صرف رقص وسرود اور فسق وفجور ہی ہوتا رہے۔اس کے بعد تو یہاں اطمینان کے ساتھ انگریزی دور کے قوانین چلتے رہیں گے، اور شریعت کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے دنیا ہی میں نہیں ،آخرت میں بھی سیاہ رو اور مستحق عذاب ٹھیریں گے،کیوں کہ شرعاً وہ نفاذ شریعت کی سعی کرنے کے مجاز ہی نہ ہوں گے۔مجھے تو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ جن صاحب کی عقل وخرد کا یہ حال تھا،وہ جماعت کو چھوڑ کر دُور چلے گئے۔
(ترجمان القرآن،جولائی ۱۹۵۷ء)