کچھ عرصے سے امریکا میں آکر مقیم ہوں ۔ یہاں کے لوگوں سے دینی و اجتماعی موضوعات پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اللّٰہ نے جتنی کچھ سمجھ بوجھ دی ہے اور آپ کی تصانیف اور دوسرے مذہبی لٹریچر سے دین کا جتنا کچھ فہم و شعور پیدا ہوا ہے، اس کے مطابق اسلام کی ترجمانی کی کوشش کرتا ہوں ۔ مگر یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بظاہر مادی آسائشوں پر مطمئن ہیں اور انھی سے مزید اطمینان حاصل کرنے میں کوشاں ہیں ۔ ان لوگوں کے مسائل اور دل چسپی کے موضوع ہمارے موضوعات سے مختلف نظر آتے ہیں ۔ ان لوگوں کی گمراہیوں کی نوعیت و کیفیت بھی اپنے ہاں کی گمراہیوں سے الگ اور شدید تر ہے۔ جس طرزِ استدلال سے ہم مسلمان معاشرے کے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ راست کی طرف بلا سکتے ہیں اور انھیں اسلام کے اصولوں کا قائل بنا سکتے ہیں ، وہ طرزِ استدلال یہاں شاید کارگر نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ یہاں کے ماحول اور ذہنیت کو سامنے رکھ کر تبلیغ و تلقین کا اصول اور طریق کار واضح کریں اور مجھے سمجھائیں کہ یہاں لوگوں کو ان کے فکر و عمل کی گمراہی اور ضرر رسانی کا احساس کس طرح دلایا جاسکتا ہے اور انھیں آمادہ اصلاح کرنے کی کیا تدابیر ہوسکتی ہیں ۔ یہاں کسی بڑی تعداد کو اسلام کی جانب مائل کرنا اوردائرہ اسلام میں داخل کرنا تو مشکل نظر آتا ہے بس یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آغاز کار میں کیا طریقہ اختیار کرنا مناسب ہوگا۔
جواب

امریکا میں آپ کو جس مسئلے سے سابقہ درپیش ہے وہ درحقیقت نیا نہیں ہے بلکہ اس طرح کی مادہ پرست سوسائٹی جہاں بھی پائی گئی ہے وہاں قریب قریب ایسی ہی دشواریوں سے دعوت حق کو سابقہ پیش آیا ہے۔ تفہیم القرآن میں مکی سورتوں کو آپ غور سے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قریش کی ذہنیت بھی ایسی ہی تھی۔ اس ذہنیت کے لوگوں کو جھنجھوڑنے اور ان کو حقائق کی طرف توجہ دلانے کے لیے قرآن مجید میں جو طرزِ دعوت اختیار کیا گیا ہے اس کو آپ اچھی طرح غور سے دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کریں توہر ایسی سوسائٹی میں دعوت کا ڈھنگ آپ کو آ جائے گا۔ اس ڈھنگ پر دعوت دینے کے لیے ضروری ہے کہ جس معاشرے میں آپ کام کر رہے ہیں اس کی بنیادی خرابیوں کے متعلق آپ کے پاس مفصل معلومات ہوں اور ان خرابیوں سے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں ان کے متعلق بھی آپ زیادہ سے زیادہ صحیح، مستند اور مفصل معلومات حاصل کریں ۔ امریکا کے بارے میں ایسی معلومات آپ کو بڑی آسانی سے حاصل ہوسکتی ہیں ۔ جرائم کی روز افزوں ترقی، جرائم کے سائنٹی فِک اور منظم طریقے اور ان کی پشت پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہانت کا کار فرما ہونا، ۲۰ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک طرف جرائم اور دوسری طرف غیرمعمولی اور غیر معتدل شہوانیت (abnormal sexuality) کا روزافزوں ہونا، طلاق کی کثرت اور خانگی زندگی کا نظام درہم برہم ہونا، ایک طرف انتہائی دولت اور دوسری طرف انتہائی غربت کا پایا جانا اور اپنے ہی معاشرے کے افراد سے نہیں بلکہ اپنے رشتے داروں اور خود اپنے بوڑھے ماں باپ تک سے لوگوں کا بے اعتنائی برتنا اور اس کے ساتھ بین الاقوامی دنیا میں وہ سفاکی جو ویت نام میں برتی جا رہی ہے اور وہ خود غرضانہ ظلم جو فلسطین میں اسرائیل کو زبردستی قائم کرکے کیا گیا، یہ وہ چیزیں ہیں جن کی طرف توجہ دلا کر آپ امریکی سوسائٹی کے ایسے افراد کو اپنی مادہ پرستانہ تہذیب کے بنیادی نقائص کا احساس دلا سکتے ہیں جن کے ضمیر میں ابھی تک کچھ زندگی باقی ہو۔ اس طرح کے مواد سے کام لے کر تنقید بھی اسی انداز میں کیجیے جو قرآن میں اختیار کیا گیا ہے اور بنیادی اصلاح کی طرف دعوت بھی قرآنی انداز میں اور قرآنی استدلال کے طرز پر کیجیے۔
امریکا والوں کی دوسری گمراہی عیسائیت ہے اور اس پر تنقید کرنے کے لیے آپ کو پورا مواد تفہیم القرآن کے ذریعے سے مل سکتا ہے۔ چاروں جلدوں کے انڈکس بغور دیکھ کر آپ مواد جمع کرسکتے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ آپ کو عیسائیت کا کم از کم ضروری مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ آپ ناواقف کی طرح نہیں بلکہ ایک واقف کار آدمی کی طرح بول سکیں ۔ مزید برآں آپ یہ بات بھی لوگوں کے ذہن نشین کیجیے کہ خدا کی طرف سے جو اصل دین نوع انسانی کی ہدایت کے لیے ابتدائسے تمام انبیا لاتے رہے ہیں وہ کیا تھا اور بعد میں عیسائیت، یہودیت اور دوسرے مذاہب اسی حقیقی دین کو بگاڑ کر کیسے بنا دیے گئے ہیں ۔ اس کے متعلق آپ کو مفصل معلومات تفہیم القرآن کے ذریعے سے مل جائیں گی۔ انڈکس میں ’’نبوت‘‘ کا عنوان نکال کر دیکھ لیں ۔ اس طریقے سے آپ لوگوں کو یہ سمجھا سکیں گے کہ ہم دراصل آپ کا مذہب تبدیل کرنے کے بجاے آپ کو اس دین کی طرف بلا رہے ہیں جو خود حضرت عیسیٰ اور موسیٰ اور ابراہیم ؊ کا دین تھا۔ ان کو بتائیے کہ اسلام صرف محمد ﷺ ہی کا دین نہیں ہے بلکہ تمام انبیا اور تمام کتب آسمانی کا دین ہے اور ایک مسلمان ان میں سے کسی کا بھی انکار نہیں کرتا بلکہ سب کو مانتا ہے۔
یہ بات بھی ملحوظ رکھیے کہ اس طرح کی سوسائٹی میں وسیع پیمانے پر تبدیلیٔ مذہب (conversion) نہیں ہوا کرتی۔ داعی کو اگرچہ سیکڑوں آدمیوں تک پہنچنا ہوتا ہے، مگر ابتدائً مشکل سے ایک دو آدمی حق کو قبول کرتے ہیں ۔ آپ جن لوگوں سے بھی بات کریں ان میں کسی ایک ایسے آدمی کو تلاش کیجیے جس میں قبولِ حق کی صلاحیت ہو اور جو حق و باطل کے معاملے میں سنجیدہ فکر و نظر کا حامل ہو۔ ایسا آدمی جب مل جائے تو پہلے اسی پر زیادہ محنت صرف کیجیے یہاں تک کہ وہ آپ کا پورا مددگار بن جائے۔ پھر وہی مزید آدمیوں کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے گا۔ مگر کسی ایسے شخص کے قبولِ اسلام پر اعتماد نہ کیجیے جس کے جذبات، اقدار، طرزِ فکر اور طرزِ زندگی میں بنیادی تبدیلی رونما نہ ہو۔ اسلام کے کسی ایک پہلو کو دیکھ کر جو اہل مغرب مسلمان ہو جاتے ہیں ، مگر مسلمان ہوکر بھی وہی کچھ رہتے ہیں جو قبولِ اسلام سے پہلے وہ تھے، وہ درحقیقت کسی کام کے لوگ نہیں ہیں بلکہ ان کا مسلمان ہونا بجاے خود ایک فتنہ ہے۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۶۶ء)