کیا آپ تحریک اقامت دین کے قائد کی حیثیت سے خود اپنے لیے اس اختیار کے مدعی ہیں کہ حکمت ِ عملی یا عملی سیاست یا اقامت دین کے مصالح کے تحت دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کریں ، کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھیرائیں ‘ اور کسی کو مقدّم اور کسی کو مؤخر کر دیں ؟
جواب

اس شق میں جو الزام آپ نے نقل کیا ہے وہ بھی ایک قطعی جھوٹا الزام ہے جس کے ثبوت میں میری کسی تحریر یا تقریر کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے دراصل جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ جس کو بھی اقامت دین کے لیے عملاً کام کرنا ہو، خواہ وہ کوئی ایک شخص ہو یا کوئی جماعت یا کوئی ریاست، اسے لازماً حالات پر نگاہ رکھ کر حکمت کے ساتھ ہی کام کرنا ہو گا اور اس راہ میں کام کرتے ہوئے ضرورت پیش آنے پر اس کو صرف جائز تدابیر ہی میں ردّوبدل نہیں کرنا ہو گا بلکہ بعض اوقات اس نوعیت کی رخصتوں سے بھی فائدہ اٹھانا پڑے گا جو شریعت نے دی ہیں جن سے استفادہ کرنے میں انبیا اور صحابہ کرام نے بھی تنزّہ نہیں برتا ہے۔ اس چیز کو یہ معنی پہنائے گئے ہیں کہ میں خود اپنے لیے دین کے احکام و قوانین میں سے کسی کو ترک اور کسی کو اختیار کرنے اور کسی کو جائز اور کسی کو ناجائز ٹھیرانے اور کسی کو مقدّم اور کسی کو مؤخر کرنے کے اختیارات کا مدعی ہوں ۔
یہ ایک عجیب نفسیاتی کیفیت ہے کہ آپ منطق کے زور لگا لگا کر ایک شخص کی بات میں سے بدترین معنی نکالنے کی کوشش کریں ، اور وہ چاہے کتنی ہی وضاحت کے ساتھ اپنا صحیح مدعا بیان کر دے مگر آپ یہی اصرار کیے چلے جائیں کہ نہیں تیرا اصل مدعا وہ نہیں ہے جو تو بیان کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو ہم تیری طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ گویا آپ کوئی وکیل استغاثہ ہیں جس نے ملزم کو کسی نہ کسی طرح پھانسنے ہی کے لیے اپنے موکل سے فیس لی ہے۔ ستم یہ ہے کہ یہاں موکّل کوئی اور نہیں آپ کا اپنا نفس ہے۔ اس کی فیس لذتِ نفس کے سوا کچھ نہیں اور آپ کی ساری دل چسپی کا محور بس یہ ہے کہ جس سے آپ ناراض ہیں اسے جس طرح بھی ہو جہنم کا مستحق ثابت کر دیں ۔ناخدا ترس حکّام جب کسی پر بگڑتے ہیں تو اسے قانون اور نظم و ضبط کا دشمن قرار دے کر پکڑتے ہیں ۔ خود غرض سیاسی لیڈر جس کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں اسے ملک اور قوم کا دشمن قرار دے کر گرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر ایک خاص مزاج کے علما جب کسی پر غضب ناک ہوتے ہیں تو ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ خدا اور رسول کو بھی فریق مقدمہ بنائیں اور یہ ثابت کریں کہ جس شخص سے ہم ناراض ہیں وہ کم بخت تو دین کا دشمن ہے، بڑی گمراہی کا فتنہ اٹھا رہا ہے اور ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھا ہے۔ اس لیے ہم یہ سارے پاپڑ صرف خدا کے دین کو بچانے کے لیے بیل رہے ہیں ۔ کاش ان حضرات کا غیظ اور طیش انھیں یہ سوچنے کی مہلت دے کہ یہ باتیں کرکے وہ اپنی اور اہلِ دین کی عزت میں کیا اضافہ فرما رہے ہیں ۔ (ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۹ء)