اپنے مجد د اور مہدی ہونے کے متعلق کیا راے ہے؟آئندہ چل کر اگر آپ مجدد یا مہدی ہونے کا دعویٰ کریں وہ صحیح ہوگا یا غلط؟
جواب

اس کا جواب ’’ترجمان القرآن‘‘میں اس سے پہلے بارہا دیا جاچکا ہے۔اگر آپ کی نگا ہ سے وہ جوابات گزر چکے ہوتے تو اس سوال کی حاجت نہ پیش آتی۔بہرحال جب آپ نے یہ سوال کیا ہے تو میں اس کا آج کوئی تازہ جواب دینے کے بجاے اپنے وہ جوابات نقل کیے دیتاہوں جو اب سے کئی برس قبل میں نے اس وقت دیے تھے جب اس الزام تراشی کی ابتداہوئی تھی۔۱۹۴۱ئ میں سب سے پہلے مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی نے ازراہ عنایت دبی زبان سے میرے متعلق اس شبہے کا اظہار کیا تھا۔ اس پر میں نے اپنے مضمون’’رفع شبہات‘‘میں عرض کیا تھا:
آپ کو میرے جرأت آمیز الفاظ سے شاید یہ گمان گزرا ہوگاکہ میں اپنے آپ کو بڑی چیزسمجھتا ہوں اور کسی بڑے مرتبے کی توقع رکھتا ہوں ۔ حالاں کہ میں جو کچھ کررہا ہوں ،صرف اپنے گناہوں کی تلافی کے لیے کررہا ہوں اور اپنی حقیقت خوب جانتا ہوں ۔بڑے مراتب تو درکنار، اگر صرف سزا سے بچ جائوں تو یہ بھی میری اُمیدوں سے بہت زیادہ ہے۔
(ترجمان القرآن،ستمبر،اکتوبر ونومبر۱۹۴۱ء)
اس کے بعد اسی زمانے میں جناب مولانا سیّد سلیما ن ندوی({ FR 982 })نے میری ایک عبارت سے یہ معنی نکالے کہ میں مجدد ہونے کا مدعی ہوں ۔ حالاں کہ میں نے اس عبارت میں اپنی حقیر کوششوں کو تجدید دین کی مساعی میں سے ایک سعی قرا ردیا تھا۔ان کے اس صریح الزام کے جواب میں میں نے عرض کیا تھا:
(کسی کام کو تجدیدی کام کہنے سے) یہ لازم نہیں آتا کہ جو تجدیدی کام کرے وہ مجدد کے لقب سے بھی ملقب ہو۔صدی کا مجدد ہونا تو اس سے بلند تر بات ہے۔اینٹیں چن کر دیوار بنانا بہرحال ایک تعمیری کام ہے،مگر کیا یہ لازم ہے کہ جو چند اینٹیں چن دے وہ انجنیر بھی کہلائے، اور پھرانجنیر بھی معمولی نہیں ،بلکہ اپنی صدی کا انجنیر؟اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدیدی کوشش کہنا، جب کہ فی الواقع وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کررہا ہو،محض ایک امر واقع کا اظہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کررہا ہے اور اس صدی کا مجدد بننا چاہتا ہے۔ کم ظرف لوگ بے شک تھوڑاسا کام کرکے اونچے اونچے دعوے کرنے لگتے ہیں ،بلکہ کام کا ارادہ ہی دعوے کی شکل میں کرتے ہیں ۔لیکن کسی ذی فہم آدمی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کام کرنے کے بجاے دعوے کرے گا۔ تجدید دین کا کام ہندستان میں اور دنیا کے دوسرے حصوں میں بہت سے لوگ کررہے ہیں ۔خود مولانا(حضرت معترض) کو بھی ہم انھی میں شمار کرتے ہیں ۔
میں نے اپنی حد استطاعت تک اس خدمت میں حصہ لینے کی سعی کی ہے اور اب ہم چند خدام دین ایک جماعت کی صورت میں اسی کے لیے کوشش کرناچاہتے ہیں ۔اﷲ جس کے کام میں بھی اتنی برکت دے کہ واقعی اس کے ہاتھوں دین کی تجدید ہوجائے،وہی درحقیقت مجدد ہو گا۔ اصل چیز نہ آدمی کا اپنا دعویٰ ہے نہ دنیا کا کسی کو مجدد کے لقب سے یاد کرنا،بلکہ اصل چیز آدمی کا ایسی خدمت کرکے اپنے مالک کے حضور پہنچنا ہے کہ وہاں اسے مجدد کا مرتبہ حاصل ہو۔ میں مولانا کے حق میں اسی چیز کی دُعا کرتا ہوں ۔ اور بہتر ہے کہ وہ بھی’’عنقارا بلند است آشیانہ‘‘({ FR 1139 })کہنے کے بجاے دوسروں کے حق میں دُعا فرمائیں کہ اﷲ ان سے اپنے دین کی ایسی کوئی خدمت لے لے۔مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض اسلامی الفاظ کو خواہ مخواہ ہوّا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔دنیا میں کوئی رومی عظمت کی تجدید کا داعیہ لے کر اُٹھتا ہے اوررومیت کے پرستار اس کو مرحبا کرتے ہیں ۔ کوئی ویدک تہذیب کی تجدید کا عزم لے کر اُٹھتا ہے اور ہندویت کے پرستار اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں ۔کوئی یونانی آرٹ کی تجدید کے ارادے سے اُٹھتا ہے اور آرٹ کے پرستار اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں ۔ کیا ان سب تجدیدوں کے درمیان صرف اﷲ کے دین کی تجدید ہی ایسا جرم ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے آدمی شرماے اور اگر کوئی اس کاخیال ظاہر کردے تو اﷲ کے پرستار اس کے پیچھے تالی پیٹ دیں ۔
(ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۴۱ء وجنوری وفروری۱۹۴۲ء)
ان تصریحات کے بعد بھی ہمارے بزرگان دین اپنے پروپیگنڈے سے باز نہ آئے۔کیوں کہ میرے خلاف مسلمانوں کو بھڑکانے کے لیے من جملہ اور ہتھکنڈوں کے ایک یہ ہتھکنڈا بھی ضروری تھاکہ مجھ پر کسی دعوے کا الزام چسپاں کیا جائے۔چنانچہ۱۹۴۵ء اور۱۹۴۶ء میں مسلسل یہ شبہہ پھیلایا جاتا رہا کہ یہ شخص مہدویت کا دعویٰ کرنے والا ہے۔ اس پر میں نے جون ۱۹۴۶ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں لکھا:
جو حضرات اس قسم کے شبہات کا اظہار کرکے بندگان خدا کو جماعتِ اسلامی کی دعوت حق سے روکنے کی کوشش فرما رہے ہیں ، میں نے ان کو ایک ایسی خطرناک سزا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس سے وہ کسی طرح رہائی حاصل نہ کرسکیں گے، اور وہ سزا یہ ہے کہ ان شاء اﷲ میں ہر قسم کے دعووں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اپنے خدا کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور پھر دیکھوں گا کہ یہ حضرات خدا کے سامنے اپنے ان شبہات کی اور ان کوبیان کر کرکے لوگوں کو حق سے روکنے کی کیا صفائی پیش کرتے ہیں ۔
اگر ان لوگوں کے دلوں میں خدا کا کچھ خوف اور آخرت کا کوئی یقین موجود ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ میرے اس جواب کے بعد پھر کبھی ان کی زبان پر یہ الزام آتا۔لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج کس جرأت کے ساتھ اسے ازسر نو پھیلایا جارہا ہے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ کی قریبی اشاعتوں میں اس کے متعلق جو کچھ لکھ چکا ہوں ،اسے دیکھ لینے کے باوجود ان میں سے کسی کی زبان میں لکنت نہیں آتی۔آخرت کا فیصلہ تو اﷲ کے ہاتھ ہے۔ مگر مجھے بتایے کہ کیا دنیا میں ایسی ہی حرکتوں سے علما کا وقار قائم ہونے کی توقع ہے؟
لطف یہ ہے کہ میری کتاب’’تجدید واِحیاے دین‘‘ جس کی بعض عبارتوں پر ان شبہات کی بنا رکھی گئی ہے اور جس کے اقتباسات طرح طرح کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ پیش کرکرکے لوگوں کو بہکایا جارہا ہے، اسی میں میرے یہ الفاظ موجود ہیں :
نبی کے سوا کسی کا یہ منصب ہی نہیں ہے کہ دعوے سے کام کا آغاز کرے،اور نہ نبی کے سوا کسی کو یقینی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس خدمت پر مامور ہوا ہے۔ مہدویت دعویٰ کرنے کی چیز نہیں ہے بلکہ کرکے دکھاجانے کی چیز ہے۔اس قسم کے دعوے جولوگ کرتے ہیں اور جو ان پر ایمان لاتے ہیں ،میرے نزدیک دونوں ہی اپنے علم کی کمی اور اپنے ذہن کی پستی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
آج جولوگ میری اس کتاب کے اقتباسات پیش کررہے ہیں ، ان سے پوچھیے کہ ان کو یہ عبارت نظر نہیں آئی یا انھوں نے دانستہ اسے چھپایا ہے؟ (ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۵۱ء )