کیا آپ جمہور علماے سلف کی تحقیقات واجتہادات پر اپنی تحقیقات کو ترجیح دیتے ہیں یا اس کے برعکس اپنے استنباطات کو ان کے اجتہادات کے مقابلے میں مرجوح قرار دیتے ہیں ؟‘‘
جواب

آپ کا] یہ[ سوال بھی آج کوئی نیا نہیں ہے،بلکہ اس سے پہلے متعدد مرتبہ مجھے اس سے سابقہ پیش آچکا ہے اور میں اس کا جواب دے چکا ہوں ۔ چنانچہ اس کا بھی آج کوئی نیا جواب دینے کے بجاے ایک پرانا جواب نقل کیے دیتا ہوں :
میں تمام بزرگان دین کا احترام کرتا ہوں مگر پرستش ان میں سے کسی کی بھی نہیں کرتا۔ انبیا ؑ کے سوا کسی کو معصوم بھی نہیں سمجھتا۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ بزرگان سلف کے خیالات اور کاموں پر بے لاگ تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالتا ہوں ،جو کچھ ان میں حق پاتا ہوں ،اسے حق کہتا ہوں ، اور جس چیز کو کتاب وسنت کے لحاظ سے یا حکمت عملی کے اعتبار سے درست نہیں پاتا،اس کو صاف صاف نادرست کہہ دیتا ہوں ۔
میرے نزدیک کسی غیر نبی کی راے یا تدبیر میں خطا پائے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی عظمت وبزرگی میں کوئی کمی آجائے۔اس لیے میں سلف کی بعض رایوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کی بزرگی کا بھی قائل رہتا ہوں ،اور میرے دل میں ان کا احترام بھی بدستور رہتا ہے۔ لیکن جو لوگ بزرگی اور معصومیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں اور جن کے نزدیک اُصول یہ ہے کہ جو بزرگ ہے وہ خطا نہیں کرتا،اور جو خطا کرتا ہے وہ بزرگ نہیں ہے،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی کسی راے یا کسی طریقے کو نادرست قرار دینا لازمی طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا خیال ظاہر کرنے والا ان کی بزرگی کا احترام نہیں کرتا اور ان کی خدمات پر قلم پھیرنا چاہتا ہے۔پھر وہ اس مقام پر بھی نہیں رکتے، بلکہ آگے بڑھ کر اس پر الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھتا ہے۔حالاں کہ علمی معاملات میں ایک شخص کا دوسرے کی راے سے اختلاف کرنا اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ جس سے اختلاف کررہا ہے ہواس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا بھی سمجھے اور بہتر بھی۔اما م محمدؒ اور امام ابو یوسفؒ نے بکثرت معاملات میں امام ابوحنیفہؒ کی راے سے اختلاف کیا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ اختلاف یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ مختلف فیہ معاملات میں اپنی راے کو صحیح اور امام صاحب کی راے کو غلط سمجھتے تھے۔ لیکن کیا اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ یہ دونوں حضرات امام ابوحنیفہؒکے مقابلے میں اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے؟ (ترجمان القرآن، جون۱۹۴۶ء)
مجھے اُمید ہے کہ اس عبارت سے آپ کو میرا مسلک پوری طرح معلوم ہوگیا ہوگا۔یہ ضروری نہیں کہ آپ اس مسلک سے اتفاق کریں ، یا خود بھی اسے قبول کرلیں ۔ لیکن میں پوچھتا ہوں کہ اس میں ضلالت کا کون سا پہلو ہے؟ اور اس کے ضلالت ہونے کے لیے کتاب وسنت میں دلیل کیا ہے؟آپ بڑی خوشی سے میری کسی راے کو، جو میں نے بزرگان سلف میں سے کسی سے اختلاف کرکے پیش کی ہو، ردّ کردیں اور اُسی راے کو ترجیح دیں جس سے میں نے اختلاف کیا ہے۔ بلکہ اگر آپ مضبوط دلائل سے میری راے کو مرجوح اور سلف کی راے کو راجح ثابت کردیں گے تو میں خود اس سے رجوع کرلوں گا۔ مگر میں پوچھتا ہوں کہ جب میں کتاب وسنت کے دلائل سے ایک راے پیش کرتا ہوں اور کتاب وسنت ہی کی دلیل سے دوسری راے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں تو آخر محض اپنی راے پیش کردینے سے میں کس گناہ کامرتکب ہوجاتا ہوں ؟اور میری راے صرف اس لیے کیوں لازماً مرجوح ہے کہ میں خلف ہوں ،اور سلف کے ہر بزرگ کی راے صرف اس وجہ سے کیوں راجح ہے کہ وہ سلف ہیں ؟ دو چار صدی بعد پیدا ہوناکوئی قصور نہیں ہے جس کی وجہ سے آدمی کی راے لازماًبے وزن اور اس کی حیثیت لازماً کم تر ہوجاتی ہو، اور دو چار صدی پہلے پیدا ہوجانا کوئی کمال نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی مقدس اور منزہ عن الخطا قرار پاجائے اور اس کی ہر راے کو راجح ہونے کا ذاتی استحقاق حاصل ہوجائے۔
بعض نادان لوگ ہر اُس اختلاف پر،جو بزرگان سلف میں سے کسی کی راے یا کسی کے طریقے سے کیا جائے، حدیث : لَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوَّلَهَا({ FR 1039 }) چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خوا ہ وہ اختلاف کتنے ہی ادب کے ساتھ کیا گیا ہو، ان بزرگوں کی خدمات اور ان کے کمالات کا کتنا ہی اعتراف کرنے کے بعد کیا گیا ہو۔ معلوم نہیں یہ لوگ اس حدیث کے معنی سے ناواقف ہیں ،یا لفظ ’’لعنت‘‘کا مفہوم نہیں جانتے، یا جان بوجھ کر محض دوسروں کو مطعون کرنے اور عوا م الناس کو بھڑکانے کے لیے فرمودۂ رسولؐ کے غلط استعمال کی جرأت کر بیٹھے ہیں ۔بہرحال کوئی صاحب علم اور صاحب عقل آدمی تو کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا کہ علمی تحقیقات میں ایک شخص کا دوسرے شخص سے مدلل اختلاف’’لعنت‘‘کا ہم معنی ہے۔اگر یہ لعنت ہے توپھر آج ہمارے درمیان راے اور تحقیق کے جتنے بھی اختلافا ت پائے جاتے ہیں وہ سب ختم ہوجانے چاہییں اور ان کا اظہار حرام ہونا چاہیے،کیوں کہ لعنت تو معاصرین کے حق میں بھی جائز نہیں ہے۔
اس سلسلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ دو باتوں کی اور توضیح کردوں ۔ اگرچہ آپ نے ان کے بارے میں سوا ل نہیں کیا ہے،مگروہ ہیں ایک طرح سے آپ ہی کے سوال سے متعلق۔
اوّل یہ کہ میں نے فقہی مسائل میں مذہب حنفی کے مفتیٰ بہ اقوال کے خلاف جب کبھی کسی راے کا اظہار کیا ہے اپنے فتوے کی حیثیت سے نہیں کیا ہے بلکہ ایک تجویز کی حیثیت سے کیا ہے، اور اس غرض سے کیا ہے کہ وقت کے علما اس پر غور کریں اور اگر میرے دلائل سے مطمئن ہوں تو میری تجویز کے مطابق فتوے میں تغیر کردیں ۔ میرے نزدیک ایسا کرنا حنفیت کے خلاف نہیں ہے اور مذہب حنفی میں اس کی گنجائش ہونے کے دلائل میں نے اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘( صفحہ ۶۰-۶۱) میں بیان کردیے ہیں ۔ اس کے ساتھ میں اُصولاً اس بات کا بھی قائل ہوں کہ ہر صاحب علم کی تجویز پر فتویٰ نہیں ہوسکتا۔ فتویٰ ایک قانونی بیان کا نام ہے، اور نظام شریعت میں قانون صرف وہی ہو سکتا ہے جس پر یا تو اجماع ہو یا جسے جمہورعلما نے تسلیم کیا ہو۔ اس لیے جب تک ایک تجویز کو اہل علم بالاتفاق یا اکثریت کے ساتھ قبول نہ کرلیں ،وہ نہ قانون بن سکتی ہے اور نہ اس پر فتویٰ ہوسکتاہے۔اس بات کو بھی میں اپنی کتاب’’اسلامی قانون‘‘(صفحہ۲۸-۲۹) میں بیان کرچکا ہوں ۔ میرے اس مسلک کو سمجھ لینے کے بعد اب کوئی مجھے بتائے کہ اگر ایک شخص مصالح دینی کی بنا پر کسی فقہی مسئلے میں تغیر فتویٰ کی ضرورت محسوس کرے اور اسے محض ایک تجویز کے طور پر اہل علم کے غور کے لیے بدلائل پیش کردے تو کیا فی الواقع یہ کوئی گناہ ہے؟اور کیا اس سے واقعی دین میں کوئی فتنہ پیدا ہوجاتا ہے؟
دوم یہ کہ میں فقہی مسائل میں انفراد({ FR 1120 }) کو پسند نہیں کرتا۔میں زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرتا ہوں ،وہ یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے میں مذہب حنفی پر میر ااطمینان نہیں ہوتا تو مذاہب اربعہ میں سے دوسرے مذاہب کے احکام اور دلائل پر نگاہ ڈالتا ہوں اور اپنی بساط بھر ان کو جانچنے کے بعد ان میں سے کسی ایک کے فتوے کو ترجیح دیتاہوں ۔شاذونادر ہی میں نے کبھی اس طریقے سے ہٹ کر مذاہب اربعہ سے باہر کے کسی فتوے کو ترجیح دی ہے، اور اگر کبھی ایسا کیابھی ہے تو بالعموم مجتہدین اُمت ہی میں سے کسی اور کی راے کو قبول کیا ہے،محض اپنی منفرد راے کم ہی کبھی پیش کی ہے۔اگرچہ انفراد میرے نزدیک حرام نہیں ہے،مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے بہت زیادہ مضبوط دلائل کی ضرورت ہے،اور کم ہی ایسااتفاق ہوا ہے کہ کبھی میں نے فقہی مسئلے میں کوئی ایسی راے ظاہر کی ہو جس میں سلف میں سے کوئی بھی میرے ساتھ نہ ہو۔اس طرح کی’’غیر مقلدیت‘‘ کا مجھے خود اعتراف ہے اور میں اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں تاوقتیکہ سب وشتم کے بجاے کتاب وسنت کی دلیل سے اس کو گناہ ثابت نہ کردیا جائے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۵۱ء)