گھر،گھوڑے اور عورت میں نحوست

میں رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں ۔ایک ایسا مکان فروخت ہورہاہے جس کا مالک بالکل لاوارث فوت ہوا ہے اور دُور کے رشتہ داروں کو وہ مکان میراث میں ملا ہے۔میں نے اس مکان کے خریدنے کا ارادہ کیا تو میرے گھر کے بعض افراد مزاحم ہوئے اور کہنے لگے کہ گھر منحوس ہے،اس میں رہنے والوں کی نسل نہیں بڑھتی حتیٰ کہ اصل مالک پر خاندان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ گھر کے لوگوں نے ان احادیث کا بھی حوالہ دیا جن میں بعض گھروں ،گھوڑوں اور عورتوں کے منحوس ہونے کا ذکر ہے۔ میں نے کتب احادیث میں اس سے متعلق روایتیں دیکھیں اور متعارف شروح وحواشی میں اس پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بھی پڑھا، لیکن جزم ویقین کے ساتھ کوئی متعین توجیہ سمجھ میں نہ آسکی۔اس بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟

انسان کے’’ فطرت‘‘پر پیدا ہونے کا مفہوم

حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُولَدَ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَ بَوَاہُ یُھَوِّدَانُہُ أَوْیُنَصِّرَ انُہُ أَوْیُمَجِسَانُہُ({ FR 2028 }) کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کا باعث آپ کی کتاب خطبات کی وہ عبارت ہے جس میں آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ’’انسان ماں کے پیٹ سے اسلام لے کر نہیں آتا۔‘‘اس حدیث کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ ہر بچہ مذہب اسلام پر پیدا ہوتا ہے،مگر آپ کی مذکورۂ بالا عبارت اس سے اِبا کرتی ہے۔آپ کی اس عبارت کو دیگر معترضین نے بھی بطور اعتراض لیا ہے۔مگر میں اس کا مطلب کسی اور سے سمجھنے یا خود نکالنے کے بجاے آپ ہی سے سمجھنا چاہتا ہوں ۔ کیوں کہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ معترض نے آپ پر اعتراض کردیا اور بادی النظر میں اس کا اعتراض معقول معلوم ہوا، مگر جب آپ کی طرف سے اس عبارت کا مفہوم بیان ہوا تو عقل سلیم نے آپ کے بیان کردہ مفہوم کی تصدیق کی۔

آفتاب کا عرش کے نیچے سجدے میں گرنا

حضرت ابو ذررضی اللّٰہ عنہ کو نبی ﷺ نے آفتاب کے متعلق بتایا کہ ڈوبنے کے بعد آفتاب عرش کے نیچے سجدے میں گر جاتا ہے اور صبح تک دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے۔
اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم اس حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور ا س کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔

خواب میں زیارتِ نبویؐ

براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریرفرما کر تشفی فرمائیں ۔
حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔کیوں کہ شیطان میری تمثال میں نہیں آسکتا،او کما قال۔
اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟کیانبیﷺ کو جس شکل وشباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورؐ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپؐ کو ہی دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں ؟

اقبال اور حدیث

اقبال مرحوم کو پاکستان میں قبول عام حاصل ہے، بالخصوص جدید طبقے میں ، اور اسی طبقے میں پرویزی حضرات بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔ اس لیے یہ لوگ مشہور کررہے ہیں کہ اقبال بھی منکر حدیث تھا۔ صحیح صورتِ حال کیا ہے؟ انگریزی خطبات میں مرحوم نے جن مآخذ کا ذکر کیا ہے، ان میں حدیث کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کی تفصیل اور توضیح میں جن نکات کا مرحوم نے ذکر کیا ہے، ان سے مرحوم کا اپنا نظریہ منکرین حدیث کی حوصلہ افزائی کا موجب سا بن گیا ہے۔

بدعت کی تعریف و اقسام

کیا بدعت کی دو قسمیں ہیں :(۱) حسنہ اور (۲) سیئہ؟ بعض صاحبان حضرت عمر فاروق ؓ کے قول نعمت البدعۃ سے بدعت کے ’’حسنہ‘‘ہونے پر دلیل لاتے ہیں ۔ حدیث شریف میں کس قسم کی بدعت کو ضلالت کہا گیا ہے؟

رسول اللّٰہ ﷺ کے گمان اور وحی میں فرق

آپ کایہ قول کہ’’آپ( رسول اکرم ﷺ) کا گمان وہ چیز نہیں جس کے صحیح نہ ثابت ہونے سے آپؐ کی نبوت پر حرف آتا ہو‘‘ میرے نزدیک قابل قبول نہیں ۔ کیوں کہ غلط گمانوں میں اُلجھنا ایک فلسفی کا کام تو ہوسکتا ہے لیکن نبی کا منصب اس سے بدرجہا اعلیٰ،بلند اور پاک ہے۔ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ رسول کریمﷺ کا فلاں گمان غلط تھا تو گویا ہم نے مان لیا کہ آپﷺ فلاں موقع پر ہدایت خداوندی حاصل نہ کرکے گمراہ ہوگئے۔ اور لہٰذا آپ ﷺ آیت مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى({ FR 2152 }) ( النجم:۲ ) کے صحیح مصداق نہ تھے۔ازراہِ کرم اپنے درج بالا قول کی وضاحت کیجیے۔

احادیث اور اُسوئہ حسنہ

از راہِ کرم منکرین حجیت حدیث کے درج ذیل شبہے کا جواب دے کر راہ نمائی فرمائیں : اس میں کلام نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے عملی طور پر سبق آموز ہے۔ قرون اولیٰ میں جب تک کہ احادیث کا تسلی بخش اہتمام نہ ہوسکا، قریتین عظیم کے باہر مسلمان قرآن مجید ہی سے اسوۂ نبی کا اقتباس کرتے تھے۔ اخلاق رسول اکرم ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ ؅ سے پوچھا گیا اور آپ نے جواباً فرمایا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ۔({ FR 2021 }) غرض قرآن پاک سے اسلامی اخلاق اور زندگی کے معلوم کرنے کے لیے ذخیرۂ وافر میسر ہے۔ فی زمانہ بھی بہت تھوڑے ہیں جن کو پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃو التحیات کی سوانح بالتفصیل و الصواب معلوم ہوں ۔ مگر متبعین شریعت عموماً اصول و ارکان سے واقف ہیں اور یہی مقصود بالذات تھا۔

احادیث میں اختلاف کے اسباب

اگر جناب منکرین حجیت حدیث کے درج ذیل شبہےکا ازالہ فرمائیں تو ذی علم احباب کے لیے عموماً اور ناظرین رسالہ کے لیے خصوصاً بہت مفید ہوگا۔
احادیث فعلی اور قولی میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے تھا۔ مثلاً احادیث فعلی میں سے کیفیت وہیئت نماز کے متعلق عقل چاہتی ہے کہ مطلقاً کسی قسم کا اختلاف نہ ہو۔خصوصاً جبکہ ارشاد نبوی تھا کہصَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِی اُصَلّیِ۔({ FR 2020 }) کم از کم حرمین شریفین میں دن رات پانچ مرتبہ ایک گروہ کثیر ہر زمانے میں متواتر اس عمل کا مشاہدہ کرتا رہا ہے مگر ابتداے زمانہ ہی میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف جو بصورت رفع یدین، ارسال یدین،({ FR 1840 }) وضع یدین({ FR 2124 })،اور آمین بالجہر وغیرہا ظاہر ہوا، اس تواتر فعلی کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے اور تواتر قولی کی حیثیت اور بھی گر جاتی ہے۔ خبر احاد کا کیا کہنا۔

بعض اقوالِ رسول ﷺکا مبنی بروحی نہ ہونا

آپ نے تفہیمات حصہ اوّل،صفحہ ۲۴۸پر سورۂ النجم کی ابتدائی آیات مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى({ FR 2151 }) ( النجم:۲-۴ )کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
’’ان آیات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی بِنا پر نطق رسول کو صرف قرآن کے ساتھ مخصوص کیا جاسکتا ہو۔ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا ۱طلاق کیا جاسکتا ہے، آیات مذکورہ کی بِنا پر وحی ہوگی۔‘‘
پھر رسائل ومسائل ] سوال نمبر ۳۴۰ [ میں دجّال کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے:
’’دجّال کے متعلق جتنی احادیث نبی ﷺ سے مروی ہیں ، ان کے مضمون پر مجموعی نظر ڈالنے سے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺکو اﷲ کی طرف سے اس معاملے میں جو علم ملا تھا،وہ صرف اس حد تک تھا کہ ایک بڑا دجّال ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی یہ اوریہ صفات ہوں گی اور وہ ان ان خصوصیات کا حامل ہوگا۔لیکن یہ آپ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کب ظاہر ہوگا،کہاں ظاہر ہوگا،اور یہ کہ آیا وہ آپؐ کے عہد میں پیدا ہوچکا ہے یا آپؐ کے بعد کسی بعید زمانے میں پیدا ہونے والا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ظہور دجّال اور صفات وخصوصیات دجّال کے متعلق حضور ﷺ کے جو ارشادات ہیں ، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں ۔بخلاف اس کے ظہور دجّال کے زمانہ ومقام کے بارے میں روایات باہم متعارض ہیں جن میں تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے، کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی نہیں ہیں ۔‘‘
اسی سلسلے میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں :
’’یہ تردّد اوّل تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے علم وحی کی بِنا پر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بِنا پر فرمائی تھیں ۔‘‘
آپ کی مندرجہ بالا تحریروں سے صاف واضح ہے کہ یہ باہم متناقض ہیں ۔ پہلی تحریر میں تو آپ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے علم وحی پر مبنی ہو گی۔ لیکن دوسری تحریروں میں آپ بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے بعض ارشادات ایسے بھی ہیں جو علم وحی پر مبنی نہیں ہیں ۔ مثلاً ظہور دجّال کے زمانہ ومقام کے بارے میں آپ کے ارشادات۔ حالاں کہ ان ارشادات پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔
نیز مندرجہ ذیل سوال بھی جواب طلب ہے:
رسول اﷲ ﷺ کے جن ارشادات کی تائید قرآن میں موجود نہیں ، ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں یا نہیں ۔اگر آپ کا یہ جواب ہو، جیسا کہ آپ کی مندرجہ بالا تحریر سے ظاہر ہے کہ جو ارشادات نبویؐ باہم متعارض نہیں ہیں ،وہ مبنی بر علم وحی ہیں اور جو باہم متعارض ہیں وہ مبنی برعلم وحی نہیں ہیں ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کتب احادیث میں ایسی کئی متعارض احادیث ہیں جن کے بارے میں ائمۂ امت کا عقیدہ ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں اور جن سے انھوں نے مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا فیصلہ ہے؟