حفاظتِ حدیث

منکرین ِ حدیث کے جواب میں آپ کا فاضلانہ مضمون ماہنامہ ترجمان القرآن میں پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء۔ اسی سلسلے میں اگر جناب ذیل کے امور پر مزید روشنی ڈالیں تو ذی علم احباب کے لیے عموماً اور ناظرین رسالہ کے لیے خصوصاً بہت ہی مفید ہوگا۔یہ بعض منکرین حجیت حدیث کے شبہات ہیں جن کا ازالہ فائدے سے خالی نہ ہوگا ورنہ خاک سار وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا({ FR 2144 }) ( الحشر:۷ ) کو صحیح معنوں میں لے کر حجیت حدیث صحیح کا قائل ہے۔
حفاظت قرآن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے یہ فرما کر کہلَا تَکْتُبُوْا عَنِیّ شَیْئًا سِوَی الْقُرْاٰنِ ({ FR 2015 }) ایک ضروری احتیاط کی صورت پیدا کر دی تھی۔ صحابہ کرام قرائ ت و حفظ قرآن کَمَا نُزِّلَ کے لیے مامور تھے اور اسی پر عامل رہے، باوجود اس کے اختلاف قرائ ت پیداہوا جس کا دفعیہ بعہد حضرت عثمانؓ ہوا، اس سے ظاہر ہے کہ احادیث بمقابلہ قرآن ویسی محفوظ نہیں ہوسکتیں ، خصوصاً جب کہ فتن جمل و صفین کے بعد مدت تک ان کی جمع و تنقید کی مختلف ذرائع سے کوشش کی گئی، جبکہ طرق، رُواۃ اور موضوعات کی چھان بین بہت مشکل تھی۔

عہد نبویﷺ میں حدیث کی کتابت اور تدوین

اگر حیات طیبۂ نبویہ کے واقعات کو ما ٔخذ دین کی حیثیت حاصل ہے اور ان سے تشریعی احکام کا انتزاع ناگزیر ہے تو ان کی کتابت وتدوین عہد نبویؐ میں کیوں نہیں ہوئی؟

فرد اور معاشرے کی کش مکش

فرد اور سوسائٹی کے باہمی تعلقات کی نسبت مندرجہ ذیل خیال اسلامی نقطۂ نظر سے کہاں تک صائب ہے؟
’’شہد کی مکھیوں ،چیونٹیوں اور دیمک کے برعکس انسان معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ حد تک ایک فرد ہے۔بدرجۂ آخر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ گلوں میں بٹ کر جینے کی جبلت رکھتا ہے۔ یہی راز ہے فرد اور معاشرے کے غیر مختتم تصادم کا! کوئی مذہب عدم توافق کی اس گرہ کو کھولنے پر قادر نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ گرہ کھلنے والی ہے ہی نہیں ! کیا خود قرآن نے نہیں کہا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا۔ (التین:۴)اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی… کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا (البلد:۴)۔ میری راے میں ان آیات کی بہترین تأویل یہ ہے کہ ایک مشین — نظام جسمانی — کی حیثیت سے آدمی اشرف المخلوقات ہے۔لیکن معاشر ے کا رکن ہونے کی حیثیت سے وہ معاشر ے کے ساتھ ہمہ وقت متصادم رہنے والا ہے۔‘‘

قرآن کا مطلوب انسان

کن اُصول،خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی ومعاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں ،اسلامی اُصول،روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہِ کرم حسبِ ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی راے تحریر کیجیے:
[۱] ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے جس کے ذریعے قومی احیا کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جاسکے۔
[۲] ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتب کیجیے جو اُصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
[۳] ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں ،انھیں ذہن میں رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کرلیں جن میں ان کی اکثریت ہو،تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرسکیں جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان ایک خوش آئندہم آہنگی پیدا ہوجائے۔
[۴] اسلامی اُصول، روایات، تصورات اورنظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتب کیجیے جو مسلمانوں کے معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔
[۵] مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریقِ کار اور نظام اس طرح مرتب کیجیے کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات، میلانات، اغراض اورمختلف نظریات کا لحاظ رہے۔({ FR 2598 })

شیطان کا سر

تفہیم القرآن جلد چہارم ،صفحہ ۲۸۹ (طبع اول) آیت۵۶، سورۂ الصّٰٓفّٰت ،ح۳۶ —— تشبیہ دینے والے (خدا) کے لیے توتشبیہ کے دونوں ارکان (مشبہ و مشبہ بہ) مشہود ہیں ۔ رہے انسان، تو انھوں نے شیطان کے سر نہیں دیکھے تو زقوم کے شگوفے تو دیکھ رکھے ہیں ۔ مشبہ بہ کی مناسبت سے مشبہ کے متعلق کچھ نہ کچھ تصور قائم کیا جا سکتا… لہٰذا اسے ’’تخیلی تشبیہ‘‘ قرار دینا موزوں نظر نہیں آتا… اس سلسلے میں جو مثالیں مفسر محترم نے پیش کی ہیں وہ اس لیے غیر متعلق ہیں کہ ان کے بیان کرنے والے انسان ہیں جنھوں نے واقعی ان چیزوں کو نہیں دیکھ رکھا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے تو شیطان اور اس کا سر دیکھ رکھا ہے۔

جِن اور انس اور خلافتِ ارضی

کیا انسانوں کے ساتھ جِن بھی خلافتِ ارضی میں شریک ہیں ۔ کیا ان کی نفسیات بھی انسانی نفسیات کے مماثل ہیں ۔ یہ مشہور ہے کہ فلاں شخص پر جِن سوار ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا ابلیس یا شیطان ہر جگہ حاضر و موجود ہے اور ہر انسان تک بیک وقت رسائی رکھتا ہے؟

جنّات اور انسانوں کا دوالگ الگ گروہ ہونا

یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہوگی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن وانس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے، بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب’’ابلیس وآدم‘‘زیر مطالعہ ہے۔اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلو م ہوا۔مصنف لکھتے ہیں : ’’سورۂ الاعراف کی آیت:۷ میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورۂ انعام کی آیت:۶ میں جن وانس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ)آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات(آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں ۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مرد۔ اس لیے جب’’گروہ جن وانس‘‘سے کہا گیا کہ تم میں سے(مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ’’گروہِ جن وانس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں ۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے۔‘‘ براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہوسکتے ہیں ؟

سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول

معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور ؈ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالۂ احادیث تحریر فرمایا ہے۔یہ کہاں تک درست ہے؟نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں ؟

طعام المسکین کے معنی

سورۃ الحاقہ اور سورۃ الماعون کی آیت وَلَا یَحْضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ کا ترجمہ دونوں جگہ تفہیم القرآن میں مختلف ہے۔ ایک جگہ ترجمے ’مسکین کو کھانا کھلانا‘ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ ’مسکین کا کھانا دینا‘ ۔اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

متقی کے لیے رزق کا وعدہ

متقی کو رزق کی فراہمی کا بہت جگہ ذکر آیا ہے مگر کئی ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو باوجود نہایت متقی ہونے کے نہایت تنگ دستی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایمان داری سے رزق کمانے والوں کی حالت تو بہت کمزور ہے مگر بد دیانت لوگوں کی آمدنی وافر ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر قلبی اطمینان کو بہت ضعف پہنچتا ہے اور ایمان داری کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ عموماً لوگ غلط طریقے استعمال کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں اور شریعت کی پابندی کرنے والے لوگ جو ایسے غلط طریقوں سے بچتے ہیں ، کامیاب نہیں ہونے پاتے۔ امید ہے آپ ان اُلجھنوں کو دور فرمائیں گے۔