قرآن کا مطلوب انسان

کن اُصول،خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی ومعاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں ،اسلامی اُصول،روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہِ کرم حسبِ ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی راے تحریر کیجیے: [۱] ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے جس کے ذریعے قومی احیا کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جاسکے۔ [۲] ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتب کیجیے جو اُصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ [۳] ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں ،انھیں ذہن میں رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کرلیں جن میں ان کی اکثریت ہو،تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کرسکیں جس میں مذہب اور سیاست کے درمیان ایک خوش آئندہم آہنگی پیدا ہوجائے۔ [۴] اسلامی اُصول، روایات، تصورات اورنظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتب کیجیے جو مسلمانوں کے معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔ [۵] مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریقِ کار اور نظام اس طرح مرتب کیجیے کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات، میلانات، اغراض اورمختلف نظریات کا لحاظ رہے۔({ FR 2598 })
جواب

آپ نے جو تفصیلی سوالات دریافت کیے ہیں ،وہ دراصل ایک ہی بڑے سوال کے اجزا ہیں ۔پھر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ان مسائل کو الگ الگ لینے اور ان پر الگ الگ راے ظاہر کرنے کے بجاے اسی بڑے سوال کو بیک وقت سامنے لے آیا جائے جس کے یہ سب اجزا ہیں ۔ اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کس طرح وہ اصلی مسلمان بنیں جنھیں بنانا قرآن کا اصل منشا تھا۔ یہ ہے اصل سوال، اوراس کے حل ہونے سے باقی سب سوالات خود بخود حل ہوجائیں گے۔
میرے پاس اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ پہلے اسلام کو،جو کچھ وہ ہے اور جو کچھ انسان سے اس کے مطالبات ہیں ،واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا جائے اور ان سے شعوری طور پر اسے قبول کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ پھر جو لوگ اسے جاننے اور سمجھنے کے بعد قبول کریں اور اپنے طرزِ عمل سے ثابت کریں کہ واقعی انھوں نے اسے قبول کیا ہے، ان کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کرنا شروع کیا جائے اور باقی مسلمانوں میں مسلسل تبلیغ وتلقین کا سلسلہ اس ارادے کے ساتھ جاری رکھا جائے کہ بالآخر ہمیں اس پارٹی میں پوری قوم کو جذب کرلینا ہے۔
اس پارٹی کے سامنے صرف ایک ہی نصب العین ہو، یعنی اسلام کو بہ حیثیت ایک نظامِ زندگی کے عملاًزمین پر قائم کرنا۔ اور اس کا ایک ہی اُصول ہو، یعنی اسلام کے خالص طریقے پر چلنا( خواہ یہ طریقہ دنیا کو مرغوب ہو یا نہ ہو) اور غیر اسلام کے ساتھ ہر مدارات و مصالحت (compromise) اور ہر آمیزش واختلاط کو قطعی چھوڑ دینا۔ اس نصب العین اور اس اُصول پر جو پارٹی کام کرے گی،اس کے لیے وہ سوالات جو آپ کے سامنے آرہے ہیں ،اوّ ل تو سرے سے پیدا ہی نہ ہوں گے اور اگر ان میں سے بعض سوالات پیدا ہوئے بھی تو وہ اس شکل میں نہیں ہوں گے جس شکل میں آپ کے سامنے اَب یہ سوالات آرہے ہیں ۔انھیں کوئی نئی اسکیم وضع نہیں کرنی ہوگی بلکہ صرف وہ قوت فراہم کرنا ہوگی جس سے بنی ہوئی اسکیم کو نافذ کرسکیں ۔ وہ اس کی پروا نہیں کریں گے کہ موجودہ حالات ہماری اسکیم کے نفاذ کے لیے ساز گار ہیں یا نہیں ۔ وہ ناساز گار حالات کو بزور بدلیں گے تاکہ وہ اس اسکیم کے لیے ساز گاری کرنے پر مجبور ہوں ۔غرض یہ کہ ان کا نقطۂ نظر اِس معاملے میں اس نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہوگا جو آپ حضرات نے اختیارکیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ آپ حضرات ایک ایسی پیچیدگی میں پڑ گئے ہیں جس کا کوئی حل شاید آپ نہ پاسکیں گے۔وہ پیچیدگی یہ ہے کہ ایک طرف تو آپ اس پوری مسلمان قوم کو’’مسلمان‘‘ کی حیثیت سے لے رہے ہیں جس کے ننانوے فی صدی افراد اسلام سے جاہل اور پچانوے فی صدی منحرف اور نوے فی صدی انحراف پر مصر ہیں ۔یعنی وہ خود اسلام کے طریقے پر چلنا نہیں چاہتے اور نہ اس منشا کو پورا کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو مسلمان بنایا گیا ہے ۔دوسری طرف آپ حالات کے اس پورے مجموعے کو جو اس وقت عملاً قائم ہے، تھوڑی سی ترمیم کے بعد قبول کرلیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حالات تو یہی رہیں اور پھر ان کے اندر کسی اسلامی اسکیم کے نفاذ کی گنجائش نکل جائےآئے۔یہی چیز آپ کے لیے ایک بڑی پیچیدگی پیدا کرتی ہے، اور اسی وجہ سے میرا یہ خیال ہے کہ جن مسائل سے آپ حضرات تعرض کررہے ہیں ،ان کا کوئی حل آپ کچھ نہ پاسکیں گے۔
(ترجمان القرآن، جولائی،اکتوبر ۱۹۴۴ء)