کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا

یہاں مغربی معاشرے میں لوگ عام طور پر کُتّے پالتے ہیں ۔ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے ہیں ۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس مصیبت سے بچنامحال ہے۔ کیا ایسی صورت میں جرابوں اور کپڑوں کو بار بار دھلوایا جائے؟

مغربی معاشرے میں طہارت کی مشکلات

برطانیا کے قیام کے دوران میں احکامِ شریعت کی پابندی میں مجھے مندرجہ ذیل دشواری پیش آرہی ہے۔ براہِ کرم صحیح راہ نمائی فرما کر ممنون فرمائیں ۔
میری دقت طہار ت او ر نماز کے بارے میں ہے۔ مجھے سویرے نو بجے اپنے ہوٹل سے نکلنا پڑتا ہے۔اب اگر شہر میں گھومتے ہوئے رفع حاجت کی ضرورت پڑے تو ہر جگہ انگریزی طرز کے بیت الخلا بنے ہوئے ہیں ،جہاں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا پڑتا ہے۔اس سے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنا لازمی ہے۔اجابت کے لیے صرف کاغذ میسر ہوتے ہیں ۔ایک بجے ظہرکا وقت ہوجاتا ہے۔اس وقت پانی کسی عام جگہ دستیاب نہیں ہوسکتا اور قیام گاہ تک آنے جانے کے لیے زحمت کے علاوہ کم ازکم ایک شلنگ خرچ ہوجاتا ہے۔نماز کے لیے کوئی پاک جگہ بھی نہیں مل سکتی۔ہوٹل میں گو پانی اورلوٹا میسر ہیں مگر پتلون کی وجہ سے استنجا نہیں ہوسکتا،البتہ وضو کیا جاسکتا ہے۔مگر اس میں بھی یہ دِقت ہے کہ پانی زمین پر نہ گرے۔ہاتھ دھونے سے لے کر سر کے مسح تک تو خیر باسن(انگریزی بیسن) میں کام ہوجاتا ہے۔لیکن پائوں دھونے کے لیے باسن پر رکھنے پڑتے ہیں جو یہاں کی معاشرت کے لحاظ سے انتہائی معیوب ہے۔

نواقضِ وضو کی تفصیل

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نماز کی تیاری کریں تو ہمیں وضو کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے ازسر نو وضو کرنا ضروری ہے،نماز پڑھ لینے کے بعد وضو کی میعاد ختم ہوجاتی ہے اور دوسری نماز کے لیے بہرحال الگ وضو کرنا لازمی ہے۔پھر یہ سمجھ میں نہیں آسکا کہ لو گ ایک وضو سے کئی کئی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں ۔اسی طرح قرآن میں وضو کے جو ارکان بیان ہوئے ہیں ،ان میں کلی کرنے اور ناک میں پانی لینے کا ذکر نہیں ہے اور نہ کہیں ایسے افعال وعوارض کی فہرست دی گئی ہے جن سے وضو ٹوٹتا ہے۔اس صورت میں کلی وغیرہ کرنا اور بعض اُمور کو نواقض وضو قرار دینا کیا قرآنی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟

نواقضِ وضوکی حکمت

اسلام نے جسم ولباس کی طہارت ونظافت کا جو لحاظ رکھا ہے اس کی قدر وقیمت سے عقلِ انسانی انکار نہیں کر سکتی۔ لیکن اس سلسلے میں بعض جزئیات بالکل ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں ۔مثلاًریح کے نکلنے سے وضو کا ٹوٹ جانا، حالاں کہ جسم کے ایک حصے سے محض ایک ہوا کے نکل جانے میں بظاہر کوئی ایسی نجاست نہیں ہے جس سے وضو ساقط ہوجائے۔آخر اس ہوا سے کیا چیز گندی ہوجاتی ہے؟ اسی طرح پیشاب کرنے سے وضو کا سقوط، حالاں کہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے اورپھر اچھی طرح دھو لیا جائے تو کہیں کوئی نجاست لگی نہیں رہ جاتی۔یہی حال دوسرے نواقضِ وضو کا ہے، جس سے وضو ٹوٹنے اور تجدیدوضو لازم آنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔براہِ کرم اس اُلجھن کو اس طرح دور کیجیے کہ مجھے عقلی اطمینان حاصل ہوجائے۔

جِنّات کے لیے شرعی احکام کی نوعیت

اس سورہ(الاحقاف) سے پتا چلتا ہے کہ جِن اتفاقی طور پر ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے طور پر اپنے ساتھیوں کو اسلام کی دعوت دی… اگر حضورﷺ انسانوں کی طرح جِنّوں کے لیے بھی مبعوث تھے تو آپ نے جِنّوں کو خود دعوت کیوں نہ دی؟ ان کی دینی تربیت کے لیے کیا اہتمام اور کیا انتظام فرمایا؟ اور اُن کے لیے شرعی احکام کی نوعیت کیا ہے؟ قرآن مجید کی معاشرتی تعلیمات جنوں کے لیے بھی اسی طرح سے واجب ہیں جیسے انسانوں کے لیے، یا ان کے احکام مختلف ہیں ؟

جِنات کا کفر وایمان کی کش مکش میں کردار

سورۃ الاحقاف آیت۲۹، حاشیہ۳۵۔(کے مطالعہ کے بعد یہ بات وضاحت طلب ہے کہ) جِنّ مکی دور ہی میں ایمان لے آئے تھے لیکن انھوں نے رسول اللّٰہﷺ اور مسلمانوں کے دورِ مصائب میں کسی طرح کی کوئی مدد نہیں کی، نہ اس کے بعد کسی جہاد میں حصہ لیا۔ کیا سارا قرآن (اوامر و نواہی) جس طرح انسانوں کے لیے واجب الاطاعت ہے جنّوں کے لیے بھی اسی طرح اس پر عمل لازم نہیں ؟ کیاصلاۃ، صوم، زکاۃ اور جہاد (بالمال و بالنفس) جنّوں پر بھی فرض نہیں تو استثنا کی بنیاد کیا ہے؟ اور اگر فرض ہے تو جِنوں نے کب اور کیسے ان پر عمل کیا؟

کیا مشرکین کے بچے جنت میں جائیں گے؟

میں ایک ۱۸ سالہ سندھی نوجوان ہوں ۔اس وقت میٹرک میں ہوتے ہوئے ایک عربی مدرسے میں دو سال سے دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہوں ۔ہمارے ہاں عربی تعلیم کانظام کچھ اس طرز کا ہے کہ ابتدا ہی میں میرے اندر اس تعلیم سے نفرت اور بیزاری پیدا ہوگئی اور ایک سال کے اندر اندراسی عربی تعلیم نے مجھے ’’لامذہب‘‘ بنا کے رکھ دیا۔لیکن چوں کہ میرے اندر صراط مستقیم پانے کی دلی تمنا تھی اس لیے میں ہمیشہ بارگا ہِ الٰہی کے حضور میں دعا کرتا رہا کہ وہ مجھے’’ راہ ِراست‘‘ پر لے آئے۔اﷲ تعالیٰ نے انتہائی کرم فرمائی کی کہ مجھے ایمان ایسی دولت پھر سے عطا ہوئی۔ چنانچہ میں اب اسی کے فضل وکرم سے دل وجان سے مسلمان ہوں ،قومیت سے سخت متنفر اور نظریۂ انسانیت کا پیروکار۔ اس ایک سال کے عرصے میں ،میں نے ’’مسند ومنبر‘‘ دونوں کو دیکھالیکن کہیں سے اطمینان قلبی نصیب نہیں ہوا۔اور اگر کہیں سے یہ نعمت میسر آئی تو پھر اسی کتاب الٰہی کے مطالعے سے جسے لوگ قرآن حکیم کہتے ہیں ۔
یوں تو اب میں اسلام کو اپنا دین مان چکا ہوں لیکن پھر بھی مطالعے کے دوران میں بعض احادیث اور فقہی مسائل ایسے آتے ہیں جو بسااوقات مجھے پریشان کرتے ہیں ۔ آج ہی کی بات ہے کہ مدرسے میں مشکوٰۃکا درس ہورہا تھا۔جب اس حدیث پر پہنچا جو باب الایمان بالقدر میں ہے کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ({ FR 1772 })
’’لڑکی کو زندہ گاڑنے والی اور وہ لڑکی جو زندہ گاڑی گئی،دونوں جہنم میں جائیں گی۔‘‘
تو میں نے استاذ مکرم سے صرف یہ کہا کہ حضور یہ حدیث میر ی سمجھ میں نہیں آئی۔انھوں نے جواب دیا کہ تمھاری سمجھ ہے ہی کیا کہ تم اسے سمجھ سکو، تمھیں تو بس آمَنَّاوَصَدَّقْنَاہی کہنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ صحیح ہے کہ میری سمجھ ناقص ہے لیکن میں اتناتو سمجھ سکتا ہوں کہ حضور اکرمﷺ کے دہن مبارک سے ایسے ناانصافی کے الفاظ نہیں نکل سکتے۔اگر آپؐ نے یہ حدیث فرمائی ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا جو کہ بظاہر ترجمے سے معلوم ہوتا ہے،اور اگر اس کا مفہوم یہی ہے توپھر یہ حدیث حضور سرور کائناتؐ کی نہیں ہوسکتی۔ میرے یہ الفاظ کہنے تھے کہ میرے لیے مصیبت پیدا ہوگئی۔ مجھے محض اس وجہ سے مدرسے سے خارج کردیا گیا اور کہا گیا کہ تم منکر حدیث ہو۔ حالاں کہ میں منکرین حدیث کے مسلک کو صحیح نہیں سمجھتا اور اسے گمراہ کن خیال کرتا ہوں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں احادیث کو سمجھنے کا حق بھی پہنچتا ہے یا نہیں ؟ ہم بلا سوچے سمجھے کس طرح اس قسم کی احادیث پر آمَنَّاوَصَدَقّنَا کہنا شروع کردیں حالاں کہ بعض محدثین نے اس کی اسناد کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔براہِ کرم اس حدیث کی وضاحت فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔

غیر اسلامی قانون نافذ کرنے والے مسلمانوں کا حکم

ایسے مسلمان جو سرکاری دفاتر میں ملازم ہیں یا گورنمنٹ کی عدالتوں میں جج اور مجسٹریٹ ہیں اور ان کے ہاتھوں قانو ن ہند کا نفاذ ہوتا ہے، یا مجالس قانون سازکے رکن ہیں اور قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں ،یہ لوگ آپ کے نقطۂ نظر سے دائرۂ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں ؟ اور آپ حضرات کے نزدیک شرعی نقطۂ نظر سے ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟

’’گناہ گار مومن ‘‘اور ’’نیکوکار کافر‘‘ کا فرق

آج کل ایف ایس سی کی ایک طالبہ نہایت ہی ذہین مسیحی لڑکی میرے پاس انگریزی پڑھنے آتی ہے۔ وہ تقریباً روزانہ مجھ سے مذہبی امور پر تبادلہ خیالات کرتی ہے۔ میں بھی اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے دین اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرنے کی کوشش کرتا ہوں بحمداللّٰہ کہ میں نے دین اسلام کے بارے میں اس کی بہت سی غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے۔
لیکن ایک دن اس نے میرے سامنے ایک سوال پیش کیا جس کا جواب مجھے نہ سوجھ سکا۔ ازاں بعد میں نے آپ کی تصانیف سے بھی رجوع کیا مگر تاحال کوئی شافی اشارات وہاں سے نہیں مل سکے۔
میری مسیحی شاگرد کہنے لگی کہ میں نے میٹرک میں اسلامیات کے کورس میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان چاہے کتنا ہی بڑا گناہ گار ہو وہ کچھ عرصہ دوزخ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخرکار ضرور جنت میں چلا جائے گا مگر کافر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رہیں گے۔ پھر وہ کہنے لگی آپ ہمیں بھی کافر ہی سمجھتے ہیں ۔ کوئی عیسائی خواہ وہ کتنا ہی نیکوکار ہو مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دوزخ ہی میں جائے گا، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟